انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: ان پھٹا گولہ بارود صاف کرنے میں 14 سال لگ سکتے ہیں، ماہرین

اقوام متحدہ کے اہلکار غزہ کے ایک ہسپتال کی تباہ حال عمارت کا جائزہ لے رہے ہیں۔
© WHO
اقوام متحدہ کے اہلکار غزہ کے ایک ہسپتال کی تباہ حال عمارت کا جائزہ لے رہے ہیں۔

غزہ: ان پھٹا گولہ بارود صاف کرنے میں 14 سال لگ سکتے ہیں، ماہرین

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ غزہ کو اَن پھٹے گولہ بارود سے پاک کرنے میں 14 سال لگ سکتے ہیں جبکہ علاقے میں بمباری سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں 37 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے۔

بارودی سرنگوں کی صفائی کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے مائن ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کے اعلیٰ عہدیدار پیر لوڈہیمر کا کہنا ہے کہ یہ تعین کرنا آسان نہیں کہ غزہ میں اَن پھٹے گولہ بارود کا اصل حجم کتنا ہے۔ تاہم اندازے کے مطابق جنگ زدہ علاقے میں ہر مربع میٹر پر تقریباً 200 کلوگرام ملبہ موجود ہے۔

Tweet URL

علاوہ ازیں، غزہ پر برسایا گیا کم از کم 10 فیصد گولہ بارود پھٹ نہیں سکا اور اگر اس کی مجموعی مقدار 100 ٹرکوں کے برابر ہو تو اس کی صفائی میں تقریباً 14 برس لگیں گے جو کسی فرد کے 750,000 ایامِ کار کے برابر ہیں۔

یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ

امریکہ سمیت 18 ممالک کے رہنماؤں نے حماس سے باقی ماندہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان لوگوں کو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے دوران یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کا کہنا ہے کہ تاحال حماس کی قید میں موجود لوگوں کی تعداد 130 ہے۔

غزہ کے طبی حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً سات ماہ سے جاری جنگ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 34,350 ہو گئی ہے جبکہ 77,360 زخمی ہیں۔ 

قحط کا خطرہ برقرار

تین ہفتے قبل اسرائیل نے ایریز کراسنگ اور اشدود کی بندرگاہ سے شمالی غزہ میں امداد کی رسائی بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم، اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں علاقے میں پہنچنے والی امداد کی مقدار میں قدرے اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ 

ادارے کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کارل سکاؤ کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں قحط کا خطرہ ٹلا نہیں۔ علاقے میں بڑے پیمانے پر کئی طرح کی متواتر مدد فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے مشرقی رفح پر اسرائیل کے حملوں کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں بڑے پیمانے پر کسی حملے کے نتیجے میں امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ 

غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے سمندری راہداری کے قیام پر انہوں نے کہا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی کے لیے زمینی راستے ہی ہر اعتبار سے موثر ہیں اور یہ راہداری ان کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

'فریڈم فلوٹیلا'

انسانی حقوق کے ماہرین نے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ امدادی سامان سے لدی کشتیوں کے ایک قافلے کو غزہ پہنچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرے۔ 'فریڈم فلوٹیلا' نامی یہ قافلہ 5,500 ٹن خوراک لے کر ترکیہ سے روانہ ہونا ہے۔ اس پر مختلف ممالک کے سینکڑوں امدادی حکام بھی موجود ہوں گے۔

عالمگیر حق خوراک پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار مائیکل فخری نے کہا ہے کہ جب یہ قافلہ فلسطینی ساحل کے قریب پہنچے تو اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہوئے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے بھی اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی یقینی بنانے میں سہولت دے۔ 

2010 میں 'فریڈم فلوٹیلا' نے غزہ میں فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی رسائی میں اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ رکاوٹوں کو توڑنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اسرائیل نے غیرفوجی بحری جہازوں پر مشتمل اس قافلے کو بین الاقوامی پانیوں میں نشانہ بنا کر اس پر موجود 10 افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا تھا۔