انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اسرائیل غزہ میں ’نسل کشی کا مرتکب‘ ہو رہا ہے، انسانی حقوق ماہر

فرانچسکا البانیز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 55ویں اجلاس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں پر اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں۔
UN Human Rights Council/Sérine Meradji
فرانچسکا البانیز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 55ویں اجلاس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں پر اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں۔

اسرائیل غزہ میں ’نسل کشی کا مرتکب‘ ہو رہا ہے، انسانی حقوق ماہر

انسانی حقوق

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانچسکا البانیز نے کہا ہے کہ یہ یقین کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو غزہ کی صورتحال پر اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے پانچ ماہ میں اس علاقے کو برباد کر دیا ہے۔ یہ تباہی فلسطینیوں کو بحیثیت گروہ منظم طور سے ختم کرنے کی دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔

Tweet URL

فرانچسکا البانیز نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی ان کا خاتمہ کرنے کے لیے اسرائیل کے طویل مدتی نوآبادیاتی عمل کا شدید ترین مرحلہ ہے۔ 

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں مزید ہلاکتوں کو روکنے کے لیے انسداد نسل کشی کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ 

نسل کشی کی ترغیب

خصوصی اطلاع کار نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والی شہریوں کی تعداد ہولناک ہے۔ جو لوگ بمباری اور حملوں میں بچ گئے ہیں ان کی زندگیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہسپتالوں سے سکولوں اور گھروں سے لے کر زرعی زمین تک زندگی کی بقا کے لیے درکار ہر چیز تباہ ہو گئی ہے۔ خاص طور پر ہزاروں بچے اور حاملہ و نوجوان مائیں اس جنگ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں غزہ پر حملے کے دوران اسرائیلی اقدامات کے تجزیے، اس کے اعلیٰ سطحی حکام کے بیانات اور ان کے نتیجے میں اسرائیلی فوجیوں کے طرزعمل کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیاں نسل کشی کی حدود کو چھو رہی ہیں۔

فرانچسکا البانیز کا کہنا ہےکہ اسرائیل کے حکام کی جانب سے غزہ میں لڑنے والے فوجیوں کے لیے متشدد تباہی پھیلانے کی ہدایات نسل کشی کے ارتکاب کی کھلی حوصلہ افزائی کا ثبوت ہیں۔

بین الاقوامی قانون کی دانستہ پامالی

انہوں نے بتایا ہے کہ اسرائیلی معاشرے کے ہر حصے میں فلسطینیوں سے نفرت پر مبنی بیانیہ پھیلایا گیا ہے جس کے مطابق غزہ کی تمام فلسطینی آبادی اسرائیل کی دشمن ہے جسے بزور طاقت ختم کر دینا چاہیے۔ 

رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی انتظامی و عسکری قیادت اور فوجیوں نے حملوں کے دوران ہدف میں امتیاز کرنے، طاقت کے متناسب استعمال اور احتیاط کے بین الاقوامی اصولوں کو جان بوجھ کر پامال کیا۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے ارادے سے کیے جانے والے تشدد کو جواز بخشنا ہے۔ 

اسرائیل نے انسانی ڈھال، انخلا کے احکامات، محفوظ علاقوں، نادانستہ نقصان اور طبی تحفظ کے زمروں کا دانستہ طور پر ازسرنو تعین کیا جس کا مقصد ان کے حفاطتی کردار کو 'جنگجوؤں کے لیے آڑ' قرار دے کر اپنی نسل کشی کی مہم کو چھپانا ہے۔

فلسطینیوں کی منظم تباہی

رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل نے 32,333 فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا ہے جن میں بچوں کی تعداد 13 ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازے کے مطابق تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے 12 ہزار سے زیادہ لوگ بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ علاقے میں متواتر بمباری اور زمینی حملوں میں زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد 74,694 ہے۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اب عمر بھر کے لیے جسمانی معذوری کا سامنا ہے۔ 

غزہ میں 70 فیصد رہائشی علاقہ تباہ ہو گیا ہے۔ 80 فیصد آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ہزاروں خاندانوں نے اپنے کسی ایک رکن کو کھو دیا ہے اور بہت سے گھرانے پوری طرح ختم ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے ہلاک ہونے والے عزیزوں کو دفنا نہیں سکے کیونکہ انہیں جان بچانے کے لیے ان کی لاشیں گھروں میں، سڑکوں اور ملبے پر ہی چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ 

ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور انہیں منظم طور سے غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک کا سامنا ہے۔ خوراک کی قلت کے باعث 20 لاکھ سے زیادہ لوگ قحط کے دھانے پر ہیں۔ 

خصوصی اطلاع کار کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو پہنچنے والی بے حساب اجتماعی تکالیف ان کی آنے والی نسلیں بھی محسوس کرتی رہیں گی۔

غزہ میں جانے والی امداد میں پچاس فیصد کمی سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
© UNRWA
غزہ میں جانے والی امداد میں پچاس فیصد کمی سے لوگوں کو اشیائے خوردونوش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

سات دہائیوں کا جبر

فرانچسکا البانیز کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہری سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے آبادیاتی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی جبر کا شکار ہیں۔ انہیں بے گھر کرنے اور ان کی زمینوں پر قبضے کے ارادے سے ان کے ناقابل انتقال حق خودارادیت کو کچلا جا رہا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری یہ یقینی بنائے کہ اسرائیل اور دیگر ممالک انسداد نسل کشی کنونشن کی پاسداری کرتے ہوئے مزید جانی نقصان کو روکنے، متاثرین کو اپنی زندگیاں نئے سرے سے شروع کرنے اور انفرادی و ریاستی سطح پر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا احتساب یقینی بنانے کے اقدامات کریں۔ یہ دنیا پر اس قابل انسداد المیے کے متاثرین اور فلسطینیوں کی آئندہ نسلوں کا قرض ہے۔

ماہرین و خصوصی اطلاع کار

غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔