انسانی کہانیاں عالمی تناظر
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار جیمی میکگولڈرک (فائل فوٹو)۔

اسرائیل پر دباؤ کا نتیجہ غزہ میں امداد کی بھرپور فراہمی ہو، میکگولڈرک

OCHA/Matteo Minasi
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار جیمی میکگولڈرک (فائل فوٹو)۔

اسرائیل پر دباؤ کا نتیجہ غزہ میں امداد کی بھرپور فراہمی ہو، میکگولڈرک

انسانی امداد

اسرائیل کی جانب سے تعاون کے وعدے کے بعد اقوام متحدہ کے لیے غزہ میں بڑے پیمانے پر خوراک پہنچانے اور قحط کو روکنے کی امید پیدا ہوئی ہے تاہم رفح میں اسرائیل کے حملے کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار جیمی میکگولڈرک نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ کی امدادی کوششوں کا واحد مقصد زندگیوں کو تحفظ دینا ہے۔ 

انہوں نے یہ بات ایسے موقع پر کہی ہے جب اسرائیل کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس نے آئندہ عسکری کارروائیوں کی تیاری کے لیے غزہ سے اپنا ایک ڈویژن واپس بلا لیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت نے امریکہ کے دباؤ پر غزہ میں انسانی امداد کی مقدار بڑھانے میں سہولت دینے کا وعدہ بھی کیا ہے، تاہم یہ بات تاحال غیر واضح ہے کہ اسرائیل کی پالیسی میں لائی جانے والی ان تبدیلیوں پر عملدرآمد کب ہو گا۔ 

جیمی میکگولڈرک کا کہنا ہے کہ سیاسی و داخلی دباؤ، 'ورلڈ سنٹرل کچن' کے سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے بعد عالمی برادری کی بڑھتی ہوئی مذمت اور اقوام متحدہ کی کاوشوں کا نتیجہ امداد میں بڑے پیمانے پر اضافے کی صورت میں برآمد ہونا چاہیے۔ 

آہستگی سے مگر یقینی طور پر اسرائیلیوں کو غزہ اور بالخصوص اس کے شمالی علاقے میں رہنے والوں کو درپیش انسانی بحران کی شدت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں امید رکھی جا سکتی ہے کہ غزہ میں اب بڑے پیمانے پر خوراک اور دیگر امداد پہنچائی جا سکے گی اور آنے والے دنوں میں امدادی اداروں کو اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ 

یو این نیوز کے ساتھ ان کی یہ بات چیت اختصار اور وضاحت کے مقصد سے مدون کر کے پیش کی گئی ہے۔ 

یو این نیوز: آغاز میں ہم ان اطلاعات پر بات کریں گے جن کے مطابق اسرائیل جنوبی غزہ سے اپنی فوج کو واپس بلا رہا ہے۔ ان خبروں پر آپ کیا تبصرہ کریں گے؟

جیمی میکگولڈرک: میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی عسکری کارروائیوں کا یہ سلسلہ خان یونس میں ختم کیا ہو گا۔ اس سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ علاقے اب مزید محفوط ہو گئے ہوں گے اور ممکن ہے کہ نقل مکانی کرنے والے لوگ اپنے علاقوں میں واپس بھی چلے جائیں۔ تاہم ایک طرح سے یہ تشویشناک بات بھی ہے کہ ہو سکتا ہے اسرائیلی فوج غزہ میں اپنے حملے کے لیے نئی صف بندی کی خاطر واپس جا رہی ہو۔ 

یو این نیوز: آپ نے بتایا کہ اسرائیل نے غزہ میں امداد کی مقدار بڑھانے میں سہولت دینے کے متعدد وعدے کیے ہیں جس کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے متواتر درخواست بھی کی جا رہی تھی۔ آپ نے اس بارے میں سات وعدوں کا حوالہ دیا۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ان میں اہم ترین وعدہ کیا ہے؟

جیمی میکگولڈرک رفع میں ہلال احمر کے کارکنوں سے بات کر رہے ہیں۔
OHCA/oPt
جیمی میکگولڈرک رفع میں ہلال احمر کے کارکنوں سے بات کر رہے ہیں۔

جیمی میکگولڈرک: میں سمجھتا ہوں کہ غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے مزید سرحدی راستے اور ذرائع کھولنا سب سے اہم بات ہے کیونکہ اس وقت ایسے راستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ 

اس وقت کیریم شالوم غزہ کی جانب امداد کی ترسیل کا واحد بڑا راستہ ہے جہاں سے روزانہ 250 ٹرک ہی گزر سکتے ہیں جبکہ غزہ میں روزانہ 500 ٹرک آنے چاہئیں۔ ہم روز اول سے یہ کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اردن سمیت مزید جگہوں سے بھی امداد آنی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت ہر ہفتے صرف 100 ٹرک آ رہے ہیں جبکہ روزانہ 30 تا 50 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ شمال میں اشدود کی جدید بندرگاہ کو کھولنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو روزانہ مزید 100 امدادی ٹرک بھی آ سکتے ہیں۔ 

اس طرح کیریم شالوم سے آنے والی امداد کو شامل کیا جائے تو غزہ میں روزانہ 500 ٹرک آئیں گے جس سے شمالی غزہ میں قحط کے خطرے پر قابو پانے سمیت تمام امدادی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ 

یو این نیوز: اسرائیل میں اپنے رابطوں کی بنیاد پر کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان وعدوں پر عملدرآمد کب ہو گا اور غزہ کے لوگ کب ان اقدامات کے بہتر اثرات کو محسوس کرنے لگیں گے؟ 

جیمی میکگولڈرک: ہمیں امید ہے کہ ایسا بہت جلد ہو گا۔ جمعے کو ہونے والی ملاقاتوں میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے کام ہو رہا ہے اور تیاریاں جاری ہیں۔ گزشتہ روز اردن میں تمام فریقین کا ایک اجلاس ہوا تھا جس میں امریکہ اور اقوام متحدہ اور اردن کی فضائیہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر امدادی راستوں میں اضافہ کرنے پر بات چیت ہوئی۔

اسی طرح ہم اسرائیلیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ یہ بتائیں کہ اشدود کی بندرگاہ کب کھولی جا سکتی ہے تاکہ امدادی سامان براہ راست ایریز پہنچ سکے یا شمالی سرحدی گزرگاہوں میں سے کسی مزید راستے کو کب کھولا جائے گا۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح ہمیں امداد کی مقدار میں فوری اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت کسی روز زیادہ سے زیادہ 10 تا 20 ٹرک شمالی غزہ میں آتے ہیں جبکہ وہاں غذائی قلت اور قحط کے خطرے پر قابو پانے کے لیے روزانہ 30 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔

یو این نیوز: ان وعدوں میں منصوبہ بندی اور یقین دہانیوں کے ارادے شامل ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بڑے پیمانے پر امداد پہنچانے اور غزہ میں قحط کے خطرے پر قابو پانے کے لیے کافی ہو گا؟

غزہ کے علاقے خان یونس میں بمباری کے دوران تباہ ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک گاڑی۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کے علاقے خان یونس میں بمباری کے دوران تباہ ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک گاڑی۔

جیمی میکگولڈرک: نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت کے دوران ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ان اقدامات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ یہ وعدے ہماری جانب سےکی جانے والی طویل ترین کاوشوں کے بعد سامنے آئے ہیں جن میں ہم غزہ کی جانب مزید امدادی راستے کھولنے اور امدادی سرگرمیوں کو حملوں سے تحفظ دینے پر زور دیتے رہے ہیں۔

تاہم بدقسمتی سے ہمیں کامیابی 'ورلڈ سنٹرل کچن' کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران ان پر دباؤ ڈالے جانے کے نتیجے میں ملی۔ یہ سب کچھ اسی ہفتے کے دوران ہوا کہ ہم اسرائیل سے کچھ رعایتیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

میں اسے بھی بامعنی اور اہم پیش رفت سمجھتا ہوں کیونکہ ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اسرائیل فوری طور پر وہ سب کچھ کر دے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ اس کے بجائے ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اب ان کے ساتھ کام ضرور شروع کر سکتے ہیں۔ 

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سرکاری سطح پر اعلان کے بعد انہیں اس پر عملدرآمد کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمارے اعلیٰ سطحی وفود خطے اور تل ابیب میں موجود ہیں جو متعدد معاملات پر اسرائیل کو ٹھوس اقدامات کے لیے مجبور کر رہے ہیں جن میں وہ تمام وعدے بھی شامل ہیں جو حالیہ دنوں ہمارے ساتھ کیے گئے ہیں۔ 

یو این نیوز: آپ نے بتایا کہ حالیہ دنوں اسرائیل نے غزہ میں لوگوں کو درپیش بڑے پیمانے پر تکالیف اور امداد کی مقدار بڑھانے میں سہولت دینے کی اپنی صلاحیت کا اعتراف کیا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے کہ اقوام متحدہ ضرورت کے مطابق امداد پہنچانے کے لیے ہرممکن کوشش کے لیے تیار تھا لیکن اس کی راہ میں بہت سے رکاوٹیں حائل تھیں؟ اور کیا پہلے اسرائیل کو لوگوں کی بڑے پیمانے پر تکالیف اور انہیں دور کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا اندازہ نہیں تھا؟

جیمی میکگولڈرک: میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسرائیل میں یہ فیصلہ کسی ایک ادارے نے نہیں کرنا۔ اس حوالے سے سیاسی معاملات کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے اور اسرائیل میں دائیں بازو کی سیاست حاوی ہے۔ وہاں جنگی کابینہ میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو 7 اکتوبر کے بعد صرف جنگ کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی سول سوسائٹی بھی ہے جو یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے سخت دباؤ ڈال رہی ہے۔ 

اس کے علاوہ اسرائیل کی فوج کو بھی دیکھنا ہے جس کی رابطوں کے حوالے سے اپنی انتظامیہ ہے اور پھر 'سی او جی اے ٹی' بھی ہے جس کے ساتھ ہم متواتر رابطوں میں ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہمارے سامنے بہت سے محاذ ہیں۔

ہمیں انہیں قائل کرنا اور صورتحال سمجھانا ہے۔ سست روی سے مگر یقینی طور پر یہی کچھ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس شہادت کا براہ راست نتیجہ ہے جو ہم نے انہیں پیش کی ہے کہ شمالی علاقے میں غذائی قلت اور جسمانی کمزوری کے باعث بہت سے بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔دو ہفتے قبل میں نے کمال عدوان میں اس کا بذات خود مشاہدہ کیا جہاں بچوں کو ایسے حالات درپیش تھے جن کا انہیں اس عمر میں سامنا نہیں ہونا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سیاستی دباؤ، اعلیٰ سطح پر ہونے والی کاوشوں اور صدر بائیڈن جیسے لوگوں اور خطے میں موجود ہماری ٹیم کے اقدامات کی بدولت ہم اسرائیل کو اس کی پالیسی میں تبدیلی لانے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سبھی یہ جانتے ہیں کہ اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور ہم طویل عرصہ سے اسرائیل کو اپنے اقدامات میں تبدیلی لانے کے لیے کہہ رہے تھے۔

اس طرح اب ہم اسرائیل کے اندر دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی جگہوں پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ انہیں ہمارے ساتھ مزید تعاون کرنا اور غزہ کے لوگوں کے لیے مزید مدد پہنچانے میں سہولت دینا ہے اور انہیں نہ تو شکوک و شبہات پھیلانا ہیں اور نہ ہی خود کو بداعتماد ثابت کرنا ہے۔ 

انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم وہاں کیوں موجود ہیں اور کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد زندگیوں کو تحفظ دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

غزہ کے خان یونس علاقے میں ملبے کا ڈھیر بنے گلی کوچوں میں گھومتی ایک بچی۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کے خان یونس علاقے میں ملبے کا ڈھیر بنے گلی کوچوں میں گھومتی ایک بچی۔

یو این نیوز: اگر ان تمام وعدوں پر عملدرآمد ہو جائے تو امداد کی فراہمی میں آپ کو مزید کون سے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے؟

جیمی میکلگولڈرک: میرے خیال میں اس وقت ہمیں نہایت غیرمستحکم صورتحال درپیش ہے اور علاقے میں بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔ لاکھوں لوگ تکالیف کا شکار ہیں اور غزہ میں ہر فرد کو ہماری جانب سے کسی نہ کسی طرح کی مدد درکار ہے۔ 

غزہ میں نظم و نسق کا قیام بہت اہم ہے کیونکہ لوگ نہایت مایوسی کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ امدادی ٹرکوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر ہلہ بول دیتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ اس طرح خوراک کا ایک حصہ ایسے لوگوں تک نہیں پہنچ پاتا جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ اسی لیے وہاں استحکام لانا بہت ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ وہاں ہر جگہ بہت بڑی مقدار میں امداد دستیاب ہو۔   

اس وقت ہم غزہ میں امداد کی فراہمی کے لیے دو سے تین دن پہلے ہی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور وہاں کسی ایک جگہ امداد کو اتنے ہی دن ذخیرہ رکھا جا سکتا ہے۔ عدم استحکام، لاقانونیت، سلامتی کے خلا کی وجہ سے امداد کی تقسیم میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔ ہمارے پاس بڑی مقدار میں خوراک دستیاب ہونی چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ رفح پر حملہ ہونے کو ہے اور ہمارے پاس خوراک کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے۔ تاہم فی الوقت ہم ایسا نہیں کر سکتے۔

یو این نیوز: جب آپ کہتے ہیں کہ رفح پر حملہ ہونے کو ہے تو کیا آپ یہ امید نہیں رکھتے کہ اسے روکا بھی جا سکتا ہے اور اسرائیل کو سمجھانا اور عالمی دباؤ پر مثبت ردعمل دینے کے لیے قائل کرنا بھی ممکن ہے؟

جیمی میکگولڈرک: میرے خیال میں وہ اس پر دھیان دے رہے ہیں۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان کےجنگی مقاصد بھی ہیں جو ان کے لیے کسی طرح کے امدادی مقاصد سے زیادہ اہم ہوں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کے لیے جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اسی لیے میری رائے میں وہ کسی نئی جنگی کارروائی کی تیاری کے لیے خان یونس سے واپس گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی یہی چاہتا ہے کہ جنگ کا اختتام رفح میں عسکری کارروائی کے بعد ہو۔

اسی لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ لوگ رفح سے نقل مکانی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کہیں جانے کے لیے بہت محدود جگہیں ہیں۔ ہمارے پاس اس گرم موسم کے لیے خاطرخواہ مقدار میں وسائل، غیرغذائی مدد، پناہ کا سامان، پانی، خوراک، تحفظ فراہم کرنے کے وسائل اور متحرک طبی مدد ہونی چاہیے۔

لہٰذا، ہمارے لیے یہ واقعتاً بہت بڑے مسائل ہیں جبکہ ان سے نمٹنے کے لیے درکار صلاحیت، وسائل اور اہلیت موجود نہیں ہے اور اس کی تیاری میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی لیے امید رکھی جا سکتی ہے کہ جب شمالی علاقے میں امداد پہنچانے کے نئے راستے کھلیں گے تو بہت بڑی مقدار میں خوراک اور دیگر مدد آئے گی اور یوں ہمیں آئندہ حالات کے لیے تیار ہونے میں مدد ملے گی۔ 

یو این نیوز: گویا وقت کم ہے اور مقابلہ سخت؟

جیمی میکگولڈرک: جی ہاں، اس وقت ہم صرف فوری ضروریات سے ہی کسی حد تک نمٹ رہے ہیں۔ ہمارے پاس امداد حاصل کرنے کے راستے محدود ہیں، امداد کا ذخیرہ بہت کم ہے جبکہ ضروریات بہت زیادہ ہیں اور شمالی غزہ حالات اور بھی خراب ہیں۔ ان مسائل پر قابو پائے بغیر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں امداد کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ رفح پر حملے کی صورت میں تقریباً آٹھ لاکھ لوگ بے گھر ہو سکتے ہیں اور ان حالات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی جاری ہے۔