انسانی کہانیاں عالمی تناظر
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے کے لیے احتساب لازم: وولکر تُرک

UN Photo/Mark Garten
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے کے لیے احتساب لازم: وولکر تُرک

انسانی حقوق

غزہ کی جنگ میں ہلاکتیں ہر گزرتے لمحے بڑھتی جا رہی ہیں اور ان میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ان حالات میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے بین الاقوامی قوانین کی پامالی کرنے والوں کا احتساب یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔

یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بیشتر مسلح تنازعات کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کھلی چھوٹ تشدد کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔ اگر حقوق اور قوانین کو پامال کرنے والوں کا محاسبہ نہ ہو اور سچائی سامنے نہ لائی جائے تو لوگوں کی تکالیف کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اسی لیے مستقبل میں اسرائیل اور فلسطین کے تنازع جیسے حالات سے بچنے اور ہر طرح کے انسانی حقوق کو برقرار رکھنے میں احتساب کی کلیدی اہمیت ہے۔

اس بات چیت میں انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورت کے علاوہ یوکرین میں جاری جنگ پر بھی بات کی جہاں روس کے حملے میں عام شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ 

وولکر تُرک نے انسانیت کے خلاف جرائم پر احتساب کی طاقت کو واضح کرتے ہوئے نورمبرگ ٹرائلز اور 1990 کی دہائی میں سابق یوگوسلاویہ میں جنگ کے بعد ہونے والے تصفیے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ قوانین اور حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم ایسے جرائم کرنے والوں کے لیے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ مستقبل میں وہ قانون کی گرفت میں نہیں آئیں گے۔ 

اس بات چیت میں ہائی کمشنر نے دنیا میں نفرت کے بڑھتے ہوئے اظہار اور خواتین کے حقوق پر قدغن کے بارے میں خاص طور پر بات کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی 75ویں سال گرہ کے ذریعے مساوی حقوق پر پیش رفت کو فروغ دینے کی خاطر اقوام متحدہ کی سال بھر جاری رہنے والی مہم کا تذکرہ بھی کیا۔ 

وضاحت کے مقصد سے اس بات چیت کے بعض حصوں کو مدون کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کمشنر وولکر ترک نے یو این نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بیشتر مسلح تنازعات کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کھلی چھوٹ تشدد کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔
UN Photo/Mark Garten
انسانی حقوق کمشنر وولکر ترک نے یو این نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بیشتر مسلح تنازعات کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کھلی چھوٹ تشدد کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔

یو این نیوز: اسرائیل اور فلسطین کے حالیہ مسلح تنازع کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران ہم متواتر ہولناک حالات کا مشاہدہ کرتے آ رہے ہیں۔ 18 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں بہت بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ 

آپ اس جنگ میں بین الاقوامی قانون کی بہت سے خوفناک پامالیوں پر انتہائی سنگین تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور آپ نے ان واقعات کی تفتیش کے لیے بھی کہا ہے۔ آپ متنبہ کر رہے ہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ کیا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کو نافذ کرنے اور تمام رکن ممالک پر اس کا اطلاق یقینی بنانے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے؟

وولکر تُرک: سب سے پہلی بات یہ کہ غزہ، مغربی کنارے اور اسرائیل میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ہمہ گیر المیہ ہے کیونکہ بالآخر اس سے تمام لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

یقیناً غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے بیان کرنے کے لیے تباہی کا لفظ کافی نہیں ہے۔ مجھے وہاں 'انرا' کے لیے کام کرنے والے اپنے بہت سے ساتھیوں (جن کی تعداد 135 ہے) اور 'ڈبلیو ایچ او' کی ایک اہلکار کی ہلاکت پر بھی افسوس ہے۔ مجھے اس بات پر بھی دکھ ہے کہ ہمارے امدادی نظام کا احترام نہیں کیا گیا اور ہمیں وہاں اپنا وہ کام انجام دینے میں مشکلات کا سامنا ہے جو ہم عام طور پر ایسی جنگی صورت حال میں کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ بھی نہایت افسوس ناک بات ہے کہ اس تنازع میں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قانون کی بدترین خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ 

مستقبل میں ایسے واقعات پر احتساب کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر حقوق پامال کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے اور سچائی سامنے نہ لائی جائے تو لوگوں کی تکالیف بڑھتی رہتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہم جو کام کر رہے ہیں اور جرائم کی عالمی عدالت جو کچھ کر رہی ہے اس سے ہمیں احتساب کے حوالے سے بعض ایسی رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی جن کا ہمیں موجودہ حالات میں سامنا ہے۔ 

یو این نیوز: آپ اس حوالے سے آئندہ کون سے اقدامات کا تصور کرتے ہیں اور اس تنازع میں نسل کشی کی ممکنہ علامات کی نشاندہی کرنے والوں سے کیا کہیں گے؟ 

وولکر تُرک: ہم اس معاملے میں تفصیلات اکٹھی کریں گے، اطلاعات حاصل کریں گے اور صورتحال پر نظر رکھیں گے۔ مجھے ظالمانہ جرائم کے خدشے پر سنگین تشویش ہے۔ مجھے خاص طور پر مغربی کنارے کی صورت حال پر خدشات ہیں کیونکہ 7 اکتوبر کے بعد وہاں 271 سے زیادہ فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں 69 بچے بھی شامل ہیں۔ مجھے وہاں مستقبل کے حوالے سے تشویش لاحق ہے۔

مجھے نہ صرف حماس بلکہ اسرائیل کے فوجی اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے استعمال کردہ توہین آمیز زبان پر بھی انتہائی افسوس ہے۔ ان میں بعض لوگوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو یکسر ناقابل قبول ہیں اور ان پر ہمیں بے حد تشویش ہے۔

غزہ کی تباہی کا ایک منظر۔
© WFP/Ali Jadallah
غزہ کی تباہی کا ایک منظر۔

یو این نیوز: یوکرین کے معاملے میں آپ روس کی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی متواتر سنگین پامالیوں کی مذمت کرتے رہے ہیں جس پر بہت کم یا سرے سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کی نگرانی کرنے اور اس بارے میں تفصیلات سامنے لانے کے متعدد طریقہ ہائے کار روبہ عمل ہیں۔ آپ اس ہولناک جنگ کے بارے میں کیا کہیں گے جسے شروع ہوئے اب تقریباً دو برس ہونے کو ہیں؟ 

وولکر تُرک: آئندہ ہفتے جب میں جنیوا واپس جاؤں گا تو وہاں مجھے انسانی حقوق کی کونسل میں بات کرنی ہے اس دوران میں یوکرین کے تازہ ترین حالات کے بارے میں بتاؤں گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہاں موسم سرما میں حالات اور بھی بدترین صورت اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ بیشتر لوگوں خصوصاً محاذ جنگ کے قریب رہنے والوں کو ایک مرتبہ پھر بجلی تک رسائی نہیں ہو گی۔

یوکرین میں ہلاکتیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں خصوصاً تشدد کے واقعات جاری ہیں۔ جب بھی روس کی افواج کسی علاقے پر قبضہ کرنے لگتی ہیں تو ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہاں بھی ہمیں احتساب یقینی بنانا ہے۔مشرق وسطیٰ کی طرح یوکرین کے معاملے میں بھی ہم احتساب کے لیے متعدد طریقہ ہائے کار سے کام لے رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ان سے تمام متاثرین کو انصاف ملے گا۔

یو این نیوز: کیا احتساب ہی اس مسئلے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے؟ 

وولکر تُرک: جی ہاں، کیونکہ دنیا بھر میں بیشتر مسلح تنازعات میں اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اگر احتساب نہ ہو تو پھر جنگ اور تنازع کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ 

یو این نیوز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یوکرین جیسی جنگ میں انصاف کو یقینی بنانے کی امید ہے؟ 

وولکر تُرک: پہلا سوال یہ ہےکہ ایسا کب ہو سکتا ہے۔ ہم نے بہت سے حالات میں دیکھا، جیسا کہ آپ بوسنیا اور سابق یوگوسلاویہ کی جنگوں اور روانڈا سمیت دیگر واقعات کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ حقوق پامال کرنے والوں کو بالآخر قانون کے کٹہرے میں لایا گیا۔ 

آج بھی ہمارے پاس قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے اختیارات موجود ہیں جن سے اس معاملے میں کام لیا جا سکتا ہے۔ جب کسی نے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہو تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مستقبل میں قانون اس تک نہیں پہنچ سکے گا۔ 

مجھے احتساب کے اس طریقہ کار پر اعتماد ہے۔ آج سے 75 برس پہلے ہم اس سے محروم تھے۔ ہم نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ طریقہ کار اپنایا۔ نورمبرگ ٹرائلز کے موقع پر قائم کردہ نظام نے ہمیں احتساب کا طریقہ کار وضع کرنے میں بہت زیادہ مدد فراہم کی۔ 

مجھے علم ہے کہ احتساب کا عمل سست رو ہو سکتا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہمیں ہر جگہ اور یکساں طور سے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تاہم یہ ایک نہایت اہم کام کا آغاز ہے۔ 

یو این نیوز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ عمل انسانی حقوق کی پامالیوں کو پیشگی روکنے میں مدد دے گا؟ 

وولکر تُرک: میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایسا ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں قانون کی پابندی نہ کرنے والوں کے لیے سزا کو بڑھانا ہو گا۔ اسی لیے ہمیں احتساب کی ضرورت ہے تاکہ جرم کا ارتکاب ہونے ہی نہ دیا جائے۔

یوکرین کے ایک سکول کی تباہ حال عمارت۔
© UNICEF/Aleksey Filippov
یوکرین کے ایک سکول کی تباہ حال عمارت۔

یو این نیوز: آپ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی حقوق کے سربراہ ہیں۔ آپ نے دنیا کے حالات پر سیرحاصل بات کی ہے۔ آپ نے ان حالات میں فوری تبدیلی لانے کے لیے کہا ہے۔ آپ ان لوگوں سے کیا کہیں گے جو انسانی حقوق سے متعلق قوانین پر اعتماد کھو چکے ہیں اور جن کا کہنا ہے کہ ان کا اطلاق امتیازی طور سے کیا جاتا ہے؟

وولکر تُرک: اقوام متحدہ دو عالمی جنگوں، ہولوکاسٹ، جوہری خطرے اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسے تباہ کن واقعات کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔ صرف یورپ میں ہی 60 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کا چارٹر اور انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ سامنے آیا۔ وہ انسانی تاریخ کا خوف ناک دور تھا اور اس چارٹر اور اعلامیے کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو دوبارہ ایسے واقعات کا سامنا نہ ہو۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس اعلامیے کی منظوری کے بعد 75 برس میں انسانی حقوق کے محاذ پر بہت سی کامیابیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ آپ تاریخی تناظر میں اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ 

یقیناً ہم نے ناکامیاں بھی دیکھی ہیں لیکن یہ بذات خود انسانی حقوق کے نظام کی خامیاں نہیں تھیں بلکہ یہ اس پر عملدرآمد میں ہونے والی ناکامیاں تھیں۔ یہ رکن ممالک اور ان کی ذمہ داریوں کا معاملہ ہے لیکن زیادہ عمومی طور پر دیکھا جائے تو انہیں کاروباروں، نجی شعبے اور غیرریاستی کرداروں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اسی جگہ ہمیں زور دینے اور صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

یو این نیوز: انسانی حقوق کو مزید سنجیدگی سے کیسے لیا جا سکتا ہے؟ کیا آپ چند مثالیں دے سکتے ہیں کہ ایسا کیونکر ممکن ہے یا اس حوالے سے عملی طور پر بہترین طریقہ ہائے کار کیا ہو سکتے ہیں؟

وولکر تُرک: میں حال ہی میں جنیوا سے آیا ہوں۔ وہاں انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے دو اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے۔ اسے ایک چھوٹا سا معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اس قدر تقسیم اور ارضی سیاسی کشیدگی کے ہوتے ہوئے بھی 155 ممالک نے انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے ٹھوس وعدے کیے ہیں۔ 

مثال کے طور پر، پانچ ممالک وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ہاں سزائے موت کو ختم کر دیں گے۔ 54 ممالک نے صنفی مساوات اور خواتین کے تحفظ کی بابت نہایت ٹھوس تجاویز دی ہیں۔ 14 یا اس سے زیادہ ممالک اپنے ہاں انسانی حقوق کے قومی ادارے قائم کر رہے ہیں۔ 

بعض ممالک جسمانی معذوری کے حامل افراد کو تحفظ دینے کے لیے قوانین کی منظوری دے رہے ہیں۔ متعدد ممالک احتساب اور انصاف کے معاملات پر مزید اقدامات کی بات کر رہے ہیں۔ اس طرح میں پُرامید ہوں کہ تمام تر منفی خبروں کے باوجود ہم درست سمت میں پیش رفت بھی کر رہے ہیں۔ 

گزشتہ تین برس میں سات ممالک نے ہم جنس تعلقات کو جرائم کی فہرست سے خارج کیا ہے۔ اگرچہ دو ممالک نے اس سے برعکس اقدامات بھی کیے لیکن سات ممالک کا یہ اقدام اہم پیش رفت ہے۔ لہٰذا ہمیں ہمت نہیں ہارنا اور اپنا کام جاری رکھنا ہے۔

ہیرات کے ایک گاؤں میں خاتون زلزلے کے نیتجے میں ملبے کا ڈھیر بن جانے والے اپنے گھر کے قریب کھڑی ہے۔
© UNICEF/Osman Khayyam
ہیرات کے ایک گاؤں میں خاتون زلزلے کے نیتجے میں ملبے کا ڈھیر بن جانے والے اپنے گھر کے قریب کھڑی ہے۔

یو این نیوز: آپ نے صنفی امور اور خواتین کے حقوق کا تذکرہ کیا۔ ہم نے طالبان کے اقدامات  سے لے کر ترقی یافتہ کہلانے والے بعض ممالک تک کئی جگہوں پر خواتین کے تولیدی حقوق کو سلب ہوتے دیکھا ہے۔ آپ اس وقت دنیا بھر میں خواتین کے حقوق پر عائد کی جانے والی قدغن پر کیا تبصرہ کریں گے۔ 

وولکر تُرک: ہم نے صنفی مساوات، صنفی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کے معاملے میں پریشان کن تنزل کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے کہاں سے آغاز کیا ہے اور یہ بات یاد رکھنا اہم ہے۔

میرے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ میں نے سوچا تھا غالباً اب جنسی و تولیدی حقوق یا مساوات سے متعلق بنیادی نوعیت کے مسائل آئندہ سر نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ انہی چیزوں پر بات ہو رہی ہے۔

تاہم میں امید کرتا ہوں کہ یہ درست راہ سے ایک عارضی انحراف ہے جس کا جلد خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے ہمیں جدوجہد کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اس معاملے میں کسی بات کو نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد میں ہم نے یہی سبق حاصل کیا ہے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ ہر نسل کو انسانی حقوق کے حوالے سے نیا عہد کرتے ہوئے ایسے عناصر کا مقابلہ کرنا چاہیے جو عام طور پر خواتین مخالف، جنسی طور پر متعصبانہ اور پدرشاہانہ رویے کے حامل ہیں۔ 21ویں صدی میں ایسے طرز ہائے عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 

یو این نیوز: کیا آپ حکومتوں کے حوالے سے بھی یہی کہیں گے؟ 

وولکر تُرک: خاص طور پر اگر آپ افغانستان کے حالات کو دیکھیں تو وہاں موجودہ حکمرانوں نے خواتین اور لڑکیوں کو ان کی جنس کی بنیاد پر انسانی حقوق سے محروم کیا ہے۔ 21ویں صدی میں ایسی مثال نہیں ملتی۔

ہمیں اسے روکنے کے طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔ تاہم یہ صرف افغانستان کا معاملہ نہیں۔ یمن میں بھی حالات نہایت تشویش ناک ہیں۔ پاپوا نیوگنی، ایران اور بعض دیگر جگہوں پر بھی خواتین کے ساتھ منظم طور سے امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ 

یو این نیوز: آئندہ برس بہت سے ممالک میں قومی سطح کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ہم جمہوریت و رواداری کے اصولوں کی بڑے پیمانے پر پامالی اور تقسیم دیکھ رہے ہیں۔ اسی دوران ہم گمراہ کن اطلاعات کی منظم مہمات اور پُرامن مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کا دفتر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات میں مدد دینے کے لیے کون سے اقدامات کر رہا ہے؟ 

وولکر تُرک: آئندہ برس 70 ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں جن میں چار ارب لوگ اپنی نئی قیادت منتخب کریں گے۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان پلیٹ فارمز کو تشدد کی ترغیب اور نفرت کے پرچار کے لیے استعمال کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ 

اس حوالے سے صرف میرے دفتر کے لیے ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر پورے اقوام متحدہ کے لیے خطرے کی ابتدائی انتباہی علامات کی نشاندہی اور ان کا تدارک کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں ٹیکنالوجی کی ان کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے جو یہ پلیٹ فارم چلاتی ہیں، تاکہ وہ سوشل میڈیا کے مواد کی نگرانی جیسے اقدامات کریں۔ ہم نے نفرت پر مبنی اظہار یا گمراہ کن اطلاعات کے انتخابی عمل پر نقصان دہ اثرات کے بارے میں مہمات بھی چلانا ہیں۔

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔
© OHCHR
انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک جنیوا میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

آپ نے نفرت اور نفرت پر مبنی اظہار کی بات کی۔ ہم دنیا بھر میں تقسیم، تنازعات اور یہود و مسلم مخالفت میں اضافے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپ ایسے لوگوں سے کیا کہیں گے جن پر اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے باعث نفرت کے جذبات غلبہ پا رہے ہیں؟ 

وولکر تُرک: نفرت ایک ایسا جذبہ ہے جو انتہائی منفی ہوتا ہے اور بدقسمتی سے اسے بہت زیادہ قبولیت بھی ملتی ہے۔ بعض اوقات کاروباری مفادات نفرت کے پھیلاؤ کا محرک ہوتے ہیں۔ ہمیں اس میں کمی لانے اور اس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو بھی سامنے لانا ہے۔ 

ہمیں ایسے طریقے اور ذرائع بھی ڈھونڈنا ہیں جن کی بدولت انسانیت کو اس کی بنیادی اقدار کی جانب واپس لایا جا سکے۔ میری خواہش ہے کہ امن، اندمال اور نفرت کو مثبت اقدامات میں تبدیل کرنے کی سوچ کو ذرائع ابلاغ اور بات چیت میں مزید پذیرائی ملے۔ 

ہم امن پر زیادہ بات نہیں کرتے جو دنیا کو انسانوں کے لیے مزید بہتر جگہ بنانے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ میری خواہش ہےکہ ہم اس ضمن میں مزید کام کریں۔ 

یو این نیوز: ہم نے کئی مرتبہ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی 75ویں سال گرہ کا تذکرہ کیا۔ اس حوالے سے سال بھر جاری رہنے والے کام کے اختتام پر دو ہفتوں میں کئی اہم پروگرام ہو رہے ہیں۔ آپ ان کے متوقع نتائج کی بابت کیا کہیں گے؟

وولکر تُرک: جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، اس موقع پر غیرمعمولی وعدے کیے گئے ہیں۔ بعض اوقات اس بارے میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنی تاریخ کے ایک سنگین اور تاریک دور سے گزر رہے ہیں۔

تاہم انسانی حقوق کے لیے بھرپور حمایت پائی جاتی ہے۔ میں رکن ممالک، نجی شعبے اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کے طرزعمل میں اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ نوجوانوں کے معاملے میں ہمیں رائے عامہ کے متعدد جائزوں سے اس کا اندازہ ہوتا ہے جن کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں۔ 

ہمارے پاس نوجوانوں پر مشتمل مشاورتی گروہ ہے اور عالمگیر اعلامیے کی سالگرہ کے موقع پر ہزاروں نوجوان ہمارے بہت سے پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ وہ جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بارے میں بات کرنے اور ان کا احساس کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اس سے مجھے بے حد امید ملتی ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ یہ مثبت قوت انسانی حقوق کو ہمارے تمام افعال کی بنیاد بنانے میں ہماری مددگار ہے۔

یو این نیوز: گویا دنیا کے موجودہ حالات سے قطع نظر آپ مستقبل کے حوالےسے پُرامید ہیں؟ 

وولکر تُرک: ہم امید کو کبھی ترک نہیں کر سکتے اور ہم اپنا کام کبھی نہیں چھوڑ سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور حاضر کے المیوں میں ہمیں یہ بھی ادراک ہے کہ ہم کیسے ان سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ آئیے ایسے مستقبل کی امید رکھیں جو مزید پُرامن ہو اور جہاں تمام انسان باہم محبت اور قبولیت کے جذبات کے ساتھ رہیں۔