انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انٹرویو: مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں شدت، اجیت سنگھے

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ اجیت سنگھے (بائیں سے دوسرے) مغربی کنارے کا دورہ کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

غزہ کے واقعات کا مغربی کنارے پر اثر پڑتا ہے اور مغربی کنارے کی صورتحال غزہ پر اثرانداز ہوتی ہے

UN OPT
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ اجیت سنگھے (بائیں سے دوسرے) مغربی کنارے کا دورہ کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

انٹرویو: مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں شدت، اجیت سنگھے

انسانی حقوق

غزہ کی جنگ کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے حقوق کی پامالیوں میں بھی نمایاں اضافہ ہو گیا ہے جہاں اسرائیلی فوج غیرقانونی آبادکاروں کی مدد کرتے ہوئے بھاری ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے سربراہ اجیت سنگھے بتاتے ہیں کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی مغربی علاقے میں حالات خراب تھے جو اب خطرناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔

2023 مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے تقریباً دو دہائیوں کا مہلک ترین سال تھا جب وہاں اسرائیلی آباد کاروں کے تشدد، فوج کی جانب سے طاقت کے حد سے زیادہ استعمال، فلسطینیوں کی املاک کی تباہی اور انہیں علاقہ بدر کیے جانے کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے گزشتہ روز ہی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی املاک منہدم کیےجانے کی اطلاع دی ہے۔ یہ واقعات شمالی علاقے میں واقع گاؤں فروش بیت دجان میں پیش آئے۔

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے اجیت سنگھے نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کی توجہ غزہ پر مرکوز ہے جبکہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے حقوق پامال کیے جانے کے واقعات کی شدت اور رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔

اگر ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی تعداد کو ہی دیکھا جائے تو اس میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ خاص طور پر ایسے واقعات تلکرم، جینن، نابلوس اور جیریکو میں پیش آ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، گرفتار کیے جانے والے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جو اب تقریباً 9,000 تک پہنچ چکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے واقعات کا مغربی کنارے پر اثر پڑتا ہے اور مغربی کنارے کی صورتحال غزہ پر اثرانداز ہوتی ہے کیونکہ دونوں جگہوں پر فلسطینی رہتے ہیں۔ اب مغربی کنارے کے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے اور وہ حملوں، چھاپوں، گرفتاریوں، حراستوں، آبادکاروں کے تشدد اور اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں کے باعث پریشان ہیں جس سے ان کی روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔

اسرائیلی کارروائی کے بعد مغربی کنارے کے نور شمس فلسطینی مہاجر کیمپ میں تباہی کا ایک منظر۔
© UNRWA/Mohammed Alsharif
اسرائیلی کارروائی کے بعد مغربی کنارے کے نور شمس فلسطینی مہاجر کیمپ میں تباہی کا ایک منظر۔

مغربی کنارے میں بڑھتے تشدد کے حوالے سے اجیت سنگھے کا اظہار خیال ذیل میں ملاحظہ کیجیے۔ 

طوالت اور وضاحت کے مقصد سے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔ 

اجیت سنگھے: مغربی کنارے میں حالیہ عرصہ کے دوران تشدد میں اضافہ انتہائی تشویشناک ہے۔ چونکہ سبھی کی توجہ غزہ پر ہے اس لیے اسرائیلی آبادکاروں کو حوصلہ ملا ہے کہ ان سے بازپرس نہیں ہو گی۔

فلسطینیوں اور ان کی املاک پر حملوں کے ذمہ داروں کا احتساب نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بلاروک و ٹوک حقوق کی پامالیاں اور فلسطینیوں کے قصبوں اور دیہات پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگوں کا تحفظ اور سلامتی قابض طاقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ 

مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے ساتھ جنگی دشمنوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کے قانون کے نفاذ کا فریم ورک ہی علاقے میں قابل اطلاق قانون ہے جس کے تحت اسرائیلی فوج اس فریم ورک میں بیان کردہ حد سے زیادہ طاقت استعمال نہیں کر سکتی، تاہم اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ 

اگرچہ مغربی کنارے میں مسلح جنگ نہیں ہو رہی لیکن اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں بڑے پیمانے پر فوجیوں، ڈرون طیاروں، لڑاکا جنگی جہازوں، کندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے میزائلوں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسے ہتھیار ہیں جو نفاذ قانون کے لیے نہیں بلکہ عام طور پر مسلح لڑائی میں استعمال ہوتے ہیں۔ 

شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں اور ان کی گرفتاریاں بھی انتہائی تشویشناک معاملہ ہے۔ لوگ قصبوں، علاقوں اور شہروں کے درمیان، حتٰی کہ مغربی کنارے کے اندر بھی ایک سے دوسری جگہ باآسانی سفر نہیں کر سکتے۔ اس سے معیشت، خاندانی نظام، معاشرے اور عمومی طور پر فلسطینی آبادی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 

یو این نیوز: ایسے حالات میں جب ہم مقبوضہ علاقے کی بات کر رہے ہیں تو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایسی جگہوں پر قابض طاقت کا قانون ہی چلتا ہے۔ لیکن آپ جو کچھ بتا رہے ہیں کیا وہ اس سے متضاد ہے؟

اجیت سنگھے: یہ بات درست ہے اور بدقسمتی سے یہی معاملہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت لوگوں کو تحفظ دینا قابض طاقت کی ذمہ داری اور فرض ہے۔ اسرائیل اور اس کی فوج سے یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں فلسطینی آبادی کو سلامتی اور تحفظ مہیا کرے گا۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر کے بعد آباد کاروں کو تحفظ دینا شروع کر دیا ہے جو فلسطینیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ 

کئی واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ جب آباد کار حملے کرتے ہیں تو اسرائیلی فوج خاموش تماشائی بنی رہی ہے۔ بعض واقعات میں اس نے حملہ آوروں کو مدد بھی فراہم کی۔ آباد کار اسرائیلی فوج کی وردیاں پہن کر بھی اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں میں پہچان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ 

بدقسمتی سے اسرائیلی فوج بلکہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں بلکہ حقیقت یہ ہےکہ اس نے ان ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔

مغربی پٹی میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
© UNOCHA
مغربی پٹی میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

یو این نیوز: ان حالات میں فلسطینیوں اور ان کے حقوق کو کون تحفظ دیتا ہے؟ 

اجیت سنگھے: یہ ایک اچھا سوال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہیں خلا پایا جاتا ہے۔ مغربی کنارے کے کئی حصوں میں فلسطینیوں کو کسی طرح کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آباد کاروں کے تشدد کو دیکھا جائے تو فلسطینیوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کے بارے میں اسرائیلی آبادیوں میں موجود پولیس اور فوج کو شکایت کریں گے۔ 

میری رائے میں یہ ایک نامعقول بات ہے۔ جب کسی فلسطینی پر اسرائیلی آباد کار حملہ کرتے ہیں تو اس سے کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اسرائیلی آبادی میں جا کر اپنی شکایت کرے گا جو پہلے ہی ان سے خوفزدہ ہے؟ علاوہ ازیں جب فلسطینی یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے واقعات پر کسی کا محاسبہ نہیں ہوتا تو وہ شکایت کیوں کریں گے؟ 

اسی لیے بہت سے فلسطینی شکایات درج نہیں کراتے اور یوں وہ تحفظ سے محروم ہیں۔ 

یو این نیوز: حملوں یا آبادکاروں کی کارروائیوں کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ 

اجیت سنگھے: ایسی کارروائیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ماضی میں ہم آباد کاروں کی جانب سے فلسطینی گلہ بانوں پر حملے دیکھتے تھے۔ تاہم گزشتہ اور رواں برس ہم فلسطینی دیہات، قصبوں اور آبادیوں پر گروہی صورت میں منظم حملوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

آباد کار منظم انداز میں اکٹھے ہو کر کسی آبادی پر حملہ کرتے ہیں۔ اس میں پتھروں اور لاٹھیوں سے لے کر آتشیں اسلحے تک کئی طرز کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے بہت سے واقعات میں فلسطینی گولیاں لگنے سے زخمی اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ 

ایسے حملے بھی دیکھے گئے ہیں جن میں دکانوں، گاڑیوں، گھروں اور پوری کی پوری آبادی کو نذرآتش کر دیا گیا۔ اس طرح ان حملوں کی شدت اور تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

یو این نیوز: گویا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حملے فلسطینیوں کی سرگرمیوں کا جواب نہیں بلکہ منظم اور مربوط کارروائیاں ہیں جن کی ترغیب خود آبادکار دیتے ہیں؟ 

اجیت سنگھے: ہمیں ایک بات یاد رکھنا ہو گی کہ وقت کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادیاں بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہیں اور آباد کار فلسطینی آبادیوں کے قریب رہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مابین لڑائی اور جھڑپوں کا متواتر امکان رہتا ہے۔ 

یو این نیوز: ان حالات میں آپ ان تمام واقعات کی تفصیل جمع کرتے اور اس پر رپورٹ دیتے ہیں۔ کیا آپ اس حوالے سے فلسطینیوں کے حقوق کے محافظ گروہوں سے بھی ملتے ہیں؟ کیا اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں میں ایسے گروہ موجود ہیں اور کیا آپ ان تمام سے رابطے کرتے ہیں؟

اجیت سنگھے: ہم معاشی و سماجی حقوق سے لے کر شہری و سیاسی حقوق تک ہر طرح کے حق کی پامالیوں کے تمام واقعات کی تفصیل جمع کرتے ہیں۔ اس میں صرف آبادکاروں کا تشدد ہی شامل نہیں بلکہ ان کی جانب سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے، گھروں کو منہدم کرنے اور انہیں حراست میں لیے جانے سمیت تمام واقعات شامل ہیں۔ 

ہمارا ایک کام یہ یقینی بنانا ہے کہ معاشرے میں سول سوسائٹی کی جگہ برقرار رہے اور ہم اس ضمن میں اقوام متحدہ اور قومی و بین الاقوامی سطح کی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جب ہم قومی تنظیموں کی بات کرتے ہیں تو ان میں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں این جی اوز شامل ہوتی ہیں۔ ہم نے سالہا سال کام کر کے یہ نیٹ ورک قائم کیا ہے۔

تاہم، کئی وجوہات کی بنا پر گزشتہ چند برس سے سول سوسائٹی کے لیے جگہ تنگ ہو گئی ہے اور اس میں اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور مقبوضہ علاقوں کے حکام کا بھی کردار ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ایسی زیادہ تر پابندیاں اسرائیل کی جانب سے عائد کی گئی ہیں۔ 

مثال کے طور پر، چند سال قبل اسرائیل نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی چھ غیرسرکاری تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا جبکہ اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا تھا۔ جب ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں تو ان این جی اوز کے لیے تعاون میں کمی آ جاتی ہے۔ لہٰذا ہم این جی اوز کو اپنا کام جاری رکھنے میں مد دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے وہاں موجودگی اور حقوق کی پامالیوں کی تفصیل جمع کرنا بہت ضروری ہے۔ 

اسی طرح اسرائیلی این جی اوز کو بھی ایسے ہی خطرات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر جب اسرائیلی حکومت نے بیرون ملک سے آنے والی رقومات پر 65 فیصد ٹیکس عائد کیا تو دراصل اس کا مقصد وہاں این جی اوز کے لیے گنجائش ختم کرنا تھا۔

اجیت سنگھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لیتے ہوئے (فائل فوٹو)۔
OHCHR
اجیت سنگھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لیتے ہوئے (فائل فوٹو)۔

یو این نیوز: اکتوبر کے بعد غزہ کے بہت سے لوگ مغربی کنارے میں رہ گئے ہیں۔ اس وقت ان کی کیا صورتحال ہے؟ 

اجیت سنگھے: جب 7 اکتوبر کے حملے ہوئے تو اس وقت غزہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کارکن مغربی کنارے اور اسرائیل میں موجود تھے جنہیں حراست میں لے لیا گیا۔ کوئی بھی ان کی درست تعداد سے آگاہ نہیں ہے۔ بعد ازاں، ان میں بہت سے لوگوں کو کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے غزہ میں بھیج دیا گیا۔ تاہم اس حوالے سے کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ کسے رہائی ملی اور کون اب تک قید میں ہے۔ 

گرفتار ہونے والے متعدد لوگوں نے اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکی، توہین، جنسی زیادتی اور تشدد کی اطلاعات دی ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ تاحال اسرائیل قید میں ہیں۔