انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ: بچے خوراک کی کمی سے ہلاک ہو رہے ہیں، ڈبلیو ایچ او

غزہ کا ہر چھٹا بچہ غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہے۔
© UNICEF/Eyad El Baba
غزہ کا ہر چھٹا بچہ غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہے۔

غزہ: بچے خوراک کی کمی سے ہلاک ہو رہے ہیں، ڈبلیو ایچ او

امن اور سلامتی

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کی شدید قلت کے باعث بچے جسمانی کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں اور شمالی علاقے میں ان کی بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ سے پہلے شدید غذائی قلت کا شکار پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 0.8 فیصد تھی۔ اب شمالی غزہ میں اس صورتحال سے دوچار دو سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 15.6 فیصد ہو گئی ہے۔ تین ماہ کے عرصہ میں بچوں کی جسمانی حالت میں آنے والے اس بگاڑ کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ غزہ بھر میں دو سال سے کم عمر کے 90 فیصد بچوں اور حاملہ و دودھ پلانے والی 95 فیصد خواتین کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ انہیں اس وقت جو خوراک میسر ہے اس میں غذائیت کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔

شمالی غزہ کے لیے طبی مدد

'ڈبلیو ایچ او' اور اس کے شراکت دار گزشتہ چند مہینوں میں پہلی مرتبہ شمالی غزہ کے الشفا ہسپتال میں ایندھن اور دیگر امدادی سامان پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس مدد سے ہسپتال میں زیرعلاج تقریباً 150 مریضوں اور شدید غذائی قلت کا شکار 50 بچوں کی زندگی کو تحفظ ملے گا۔

'ڈبلیو ایچ او' کے مشن نے 7 اکتوبر کے بعد پہلی مرتبہ کمال عدوان ہسپتال میں بھی امداد پہنچائی ہے۔ گزشتہ دنوں اس ہسپتال میں 10 نومولود بچے خوراک اور پانی کی قلت کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ 

ڈاکٹر پیپرکورن نے بتایا ہے کہ ال عودہ ہسپتال کی صورتحال خاص طور پر مخدوش ہے جہاں اس وقت مدد پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے امدادی قافلوں کو جنگ سے تحفظ دینے کا طریقہ کار وضع کرنے پر زور دیا ہے۔

امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں

'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے نے بتایا ہے کہ جنوری میں اقوام متحدہ کی بیشتر امدادی ٹیموں کو شمالی غزہ میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران 16 میں سے صرف تین امدادی کارروائیاں ممکن ہو سکیں، چار کارروائیوں میں رکاوٹ عائد کی گئی اور نو مرتبہ انہیں علاقے میں داخلے سے روک دیا گیا۔ 

اگرچہ شمالی علاقے میں امدادی ضروریات زیادہ ہیں لیکن پانچ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ بھر کے لوگوں کی زندگی اب انسانی امداد پر ہی منحصر ہے۔ غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے 15 لاکھ لوگ انتہائی جنوبی شہر رفح میں پناہ گزین ہیں جہاں خوراک کی قلت اور بیماریاں پھیلنے سے بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے۔

نقل و حمل میں اضافے کی کوششیں

غزہ بھر میں امداد کی فراہمی میں حائل مشکلات کے باعث گزشتہ دنوں فضا سے امدادی سامان گرانے کی کارروائیاں بھی انجام دی گئی ہیں۔ تاحال اقوام متحدہ ایسی کارروائیوں کا حصہ نہیں ہے لیکن ہنگامی امدادی امور کے لیے اس کے ادارے (اوچا) نے کہا ہے کہ ضرورت مند لوگوں تک مدد پہنچانے کے  لیے ہر طریقے سے کام لیا جائے گا۔

ادارے کے ترجمان جینز لائرکے کا کہنا ہے کہ اس وقت امدادی مقاصد کے لیے زمینی نقل و حمل میں اضافہ ممکن بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے تاکہ بڑے پیمانے پر ضروریات پوری ہو سکیں۔ 

حالیہ جنگ شروع ہونے سے پہلے روزانہ تقریباً 500 ٹرک امداد اور تجارتی سامان لے کر غزہ میں آتے تھے لیکن گزشتہ پانچ مہینوں میں ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 133 تک رہی ہے۔ 

'اوچا' غزہ کی جانب مزید سرحدی راستے کھلوانے کے لیے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم ابھی تک اسے کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ 

دوسری عالمی جنگ سے بدتر حالات

موزوں رہائش کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار بالاکرشنن راجاگوپال نے کونسل برائے انسانی حقوق کو بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں تقریباً 80 فیصد گھر اسرائیلی بمباری میں تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں خدمات، نوکریاں، سکول، مذہبی مقامات، یونیورسٹیاں اور ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں۔ اس تباہی کی شدت حالیہ برسوں میں شام کے شہر حلب، یوکرین میں میریوپول حتیٰ کہ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے شہر ڈریسڈن اور نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں ہونے والی تباہی سے بھی زیادہ ہے۔