انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایران: مظاہرین کی سزائے موت پر یو این انسانی حقوق ماہرین کو تشویش

ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے والے خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان مظاہرین کی سزائے موت اور اس پر عملدرآمد کی مذمت کرتے ہوئے۔
UN Photo
ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے والے خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان مظاہرین کی سزائے موت اور اس پر عملدرآمد کی مذمت کرتے ہوئے۔

ایران: مظاہرین کی سزائے موت پر یو این انسانی حقوق ماہرین کو تشویش

انسانی حقوق

ایران میں گزشتہ سال نومبر میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر حکومتی ردعمل کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ اسے مظاہرین کو سزائے موت دیے جانے پر "گہری تشویش" ہے۔

ایران کے بارے میں حقائق جاننے کے لئے قائم کردہ غیرجانبدار بین الاقومی مشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعے کو ماجد کاظمی، صالح میرہاشمی اور سعید یاغوبی کو دی جانے والی سزائے موت "ان لوگوں کی 16 ستمبر 2022 کو ایران میں شروع ہونے والے مظاہروں میں شمولیت کی اطلاعات کے تناظر میں شدید تشویش کا باعث ہے۔

Tweet URL

علاوہ ازیں ایسے الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں کہ انہیں تشدد کے نتیجے میں کئے گئے اعتراف جرم پر موت کی سزا سنائی گئی۔"

احتجاجی مظاہروں میں قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے والے تین رکنی پینل نے قبل ازیں ایران کے حکام سے احتجاج کا حق استعمال کرنے والے بعض لوگوں کو سزائے موت دیے جانے سے متعلق معلومات طلب کی تھیں۔

سزائے موت کا "ہولناک سلسلہ" ختم کیا جائے: خصوصی اطلاع کار

انسانی حقوق کے تینوں غیرجانبدار ماہرین/ خصوصی اطلاع کاروں نے ایک الگ بیان میں تینوں افراد کو سزائے موت دیے جانے کی مذمت کی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ "ایران میں پھانسیوں کے ہولناک سلسلے کو روکے۔"

ماہرین نے کہا کہ "ہمیں اس معاملے میں غیرشفاف قانونی کارروائی کی اطلاعات پر تشویش ہے اور ہمیں شدید پریشانی ہے کہ سزائے موت پانے والے ان تینوں افراد کو تشدد یا دیگر طرح کی بدسلوکی کا نشانہ بنا کر ان سے جرم کا اعتراف کرایا گیا۔"

اطلاعات کے مطابق تینوں افراد کو 21 نومبر 2022 کو اصفہان میں احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا جو 16 ستمبر کو مہاسا امینی نامی خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔

سزائے موت پانے والے تینوں افراد کو تین ایرانی حکام کی ہلاکت کا مجرم ٹھہرایا گیا اور انہیں محاربہ (خدا سے دشمنی) کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔

بین الاقوامی قانون کی "بے توقیری"

ماہرین کا کہنا ہے کہ "آج صبح ان تینوں افراد کو سزائے موت دیے جانے سے ہمارے ان خدشات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایران کے حکام بین الاقوامی قانون سے بے توقیری برت رہے ہیں۔ سزائے موت دیتے ہوئے منصفانہ مقدمے یا جائز قانونی کارروائی کے قابل قبول بین الاقوامی معیارات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔"

ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان، ججوں اور وکلا کی غیرجانبداری سے متعلق معاملات کی ماہر مارگریٹ سیٹرتھ ویٹ اور ماورائے عدالت، سرسری قانونی کارروائی کے ذریعے یا ناجائز طور پر سزائے موت دیے جانے کی تحقیقات کرنے والے مورس ٹِڈبال۔بِنز نے کہا کہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام کی اموات میں ملزموں کے مبینہ کردار سے متعلق الزامات انتہائی مبہم اور قابل اعتراض تھے۔"

ان حکام کو اصفہان میں مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تاہم ملزموں پر واضح طور سے 'قتل' کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔

سزا پانے والے تینوں افراد نے 6 مئی کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کی لیکن ایران کی سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت برقرار رکھی جبکہ عدالتی فیصلے کے ازسرنو جائزے سے متعلق ان کی درخواست زیرالتوا تھی۔ 17 مئی کو جیل حکام نے ان ملزموں کے اہلخانہ کو ان سے ملنے کو کہا اور بتایا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہو گی۔

زندگی کے حق کی پامالی

غیرجانبدار ماہرین نے کہا کہ "موت کی سزا زندگی کے حق کی پامالی ہے اور یہ انتہائی ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سزا ہے۔"

یکم جنوری کے بعد ایران میں کم از کم 259 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے اور ان میں بیشتر لوگوں کو منشیات سے متعلقہ جرائم پر یہ سزا ہوئی۔ سزا پانے والوں میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

خصوصی اطلاع کار

خصوصی اطلاع کار اور حقوق کے دیگر ماہرین اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کئے جاتے ہیں۔ ان کا کام انسانی حقوق کے حوالے سے مخصوص مسائل یا کسی ملک میں حقوق کی صورتحال کی نگرانی کرنا اور اطلاع دینا ہے۔ یہ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا کوئی معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔