انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے پھر ویٹو کردیا

امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ اے وڈ نے کہا کہ ان کے ملک کی طرف سے پیش کی گئی تقریباً تمام سفارشات کو نظرانداز کر دیا گیا۔
UN Photo/Evan Schneider
امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ اے وڈ نے کہا کہ ان کے ملک کی طرف سے پیش کی گئی تقریباً تمام سفارشات کو نظرانداز کر دیا گیا۔

غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے پھر ویٹو کردیا

امن اور سلامتی

مشرق وسطیٰ خاص طور پر غزہ کی پٹی میں انسانی بحران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس جمعہ کو منعقد ہوا جس میں متحدہ عرب امارت کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد کے حق میں 13 ووٹ اور مخالفت میں 1 ووٹ پڑا جبکہ ایک رکن نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں قرارداد کے خلاف امریکہ نے ووٹ ڈالا جبکہ برطانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ تاہم غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کثرت رائے سے منظور تسلیم کی گئی لیکن امریکہ نے مستقل رکن کے طور پر اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اسے ویٹو کر دیا۔

آرٹیکل 99 کا استعمال

سلامتی کونسل کا یہ اجلاس سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی طرف سے یو این چارٹر کی شق 99 کے تحت بدھ کو لکھے گئے خط کے نتیجے میں بلایا گیا تھا۔

یو این چارٹر کی شق 99 کا استعمال اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا سب سے طاقتور اختیار ہے جسے صرف اس ہنگامی صورتحال میں بروئے کار لایا جاتا ہے جب وہ یہ سمجھیں کہ اگر یہ مسئلہ فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو اس سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے چھ سالہ دور میں پہلی دفعہ یو این چارٹر کی شق 99 کا سہارا لیا ہے۔

متحدہ عرب امارت کے سفیر محمد عیسیٰ ابو شہاب غزہ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد پیش کر رہے ہیں۔
UN Photo/Evan Schneider
متحدہ عرب امارت کے سفیر محمد عیسیٰ ابو شہاب غزہ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد پیش کر رہے ہیں۔

قرارداد جو ویٹو ہوگئی

متحدہ عرب امارات کی پیش کردہ قرارداد میں غزہ کی تباہ کن انسانی صورت حال اور شہری آبادی کی تکالیف پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ 

اس میں کہا گیا تھا کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی عمل میں لائی جائے اور تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی سمیت انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ 

قرارداد میں غزہ کی پٹی میں تباہ کن انسانی حالات اور فلسطینی شہریوں کو درپیش مصائب پر شدید تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ فلسطینی اور اسرائیلی شہری آبادی کو بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔

علاوہ ازیں، فریقین سے کہا گیا تھا کہ وہ شہریوں کی حفاطت کے حوالے سے بین الاقوامی انسانی قانون سمیت عالمی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا پاس کریں۔

امریکی مؤقف

امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ اے وڈ نے کہا کہ امریکہ نے نیک نیتی سے اس قرارداد کے متن پر بات چیت میں شرکت کی۔ اس کا مقصد یرغمالیوں کی رہائی اور مزید امداد غزہ پہنچانے میں مدد دینا تھا۔

تاہم، بدقسمتی سے ان کی تقریباً تمام سفارشات کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اس طرح ایک غیرمتوازن قرارداد سامنے آئی۔ اس میں حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور اس کے نتیجے میں عملاً کوئی ٹھوس پیش رفت ممکن نہ ہوتی۔ اسی لیے افسوسناک طور سے ان کا ملک اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ تاحال یہ نہیں سمجھ سکا کہ قرارداد تحریر کرنے والوں نے اس میں 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے ہولناک دہشت گرد حملے کی مذمت کے الفاظ شامل کرنے سے انکار کیوں کیا۔

روس کے نمائندے دمتری پولیانسکی۔
UN Photo/Loey Felipe
روس کے نمائندے دمتری پولیانسکی۔

روس کا ردعمل

روس کے نمائندے دمتری پولیانسکی نے کہا کہ امریکہ تباہی کو جاری رہنے دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسے چاہیے کہ  درست فیصلہ کرے اور تشدد کو ختم کرنے کے مطالبے کی حمایت کرے۔

برطانیہ کیوں غیر حاضر؟

برطانیہ کی سفیر باربرا وڈوارڈ نے قرارداد پر رائے شماری سے اپنے ملک کی غیرحاضری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد میں 7 اکتوبر کو بے گناہ اسرائیلی شہریوں پر حماس کے مظالم کی مذمت نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ملک اس کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتا۔

سیکرٹری جنرل کی تشویش بجا، فرانس

فرانس کے مستقل نمائندے نکولس ڈی ریوژے نے کہا کہ غزہ میں رونما ہوتے انسانی المیے پر سیکرٹری جنرل کی تشویش بجا ہے۔اسی لیے فرانس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ملک  نے فوری اور پائیدار جنگ بندی کی درخواست کی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سختی سے پاسداری کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہریوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ 

رائے شماری سے پہلے اسرائیل اور فلسطین کے نمائندوں نے سلامتی کونسل کو اپنے اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔

اسرائیل کے سفیر گیلاد ایردان نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں علاقائی استحکام حماس کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
UN Photo/Evan Schneider
اسرائیل کے سفیر گیلاد ایردان نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں علاقائی استحکام حماس کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

حماس کا خاتمہ ضروری، اسرائیل

اسرائیل کے سفیر گیلاد ایردان نے کہا کہ دنیا یوکرین کے خلاف جنگ کے اثرات بھگت رہی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل نے اس مسئلے پر ایک مرتبہ بھی ادارے کے چارٹر کے آرٹیکل 99 سے رجوع نہیں کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں علاقائی استحکام حماس کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جنگ بندی کے مطالبے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔

اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے مستقل مندوب ریاض منصور  نے کہا کہ گر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ تباہی اور فلسطینیوں کی بے گھری کا مخالف ہے تو اسے فوری جنگ بندی کی حمایت کرنی چاہیے۔
UN Photo/Loey Felipe

’فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے‘

اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے مستقل مندوب ریاض منصور نے اسرائیل کے حملوں کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بمباری نے انسانی امداد اور رسائی پر ہر طرح کی رکاوٹ عائد کر رکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود  سب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے اس جارحیت کا مقصد غزہ میں فلسطینی لوگوں کی تباہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں لوگ زیرمحاصرہ ہیں، ان پر بم برسائے جا رہے ہیں اور انہیں زندگی کی ہر ضرورت سے محروم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس واضح جنگی مقاصد نہیں ہیں۔ کیا ہم یہ فرض کیے ہوئے ہیں کہ ہمیں نہیں علم کہ اس کا مقصد غزہ میں نسل کشی ہے۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ تباہی اور فلسطینیوں کی بے گھری کا مخالف ہے تو اسے فوری جنگ بندی کی حمایت کرنی چاہیے۔

اجتماعی سزا کا کوئی جواز نہیں، گوتیرش

آج سلامتی کونسل کے اجلاس کے آغاز میں سیکرٹری جنرل نے 7 اکتوبر کو اسرائیلی علاقوں پر حماس کے حملوں اور ان میں 33 بچوں سمیت ہونے والی 1200 ہلاکتوں، سینکڑوں لوگوں کو ٰیرغمال بنائے جانے، اور مبینہ جنسی زیادتیوں کی کڑی مذمت کی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ حماس کے مظالم غزہ کے لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کا ہرگز جواز نہیں بنتے۔

انہوں نے سلامتی کونسل کے ارکان سے استدعا کی کہ وہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں تاکہ ضرورت مندوں تک امداد پہنچائی جا سکے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت مسئلے کے دو ریاستی حل پر بھی زور دیا تا کہ اسرائیلی اور فلسطینی امن کے ساتھ رہ سکیں۔

اجلاس سے اب تک فلسطین، اسرائیل، امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، اور قطر کے نمائندوں نے خطاب کیا ہے۔