انسانی کہانیاں عالمی تناظر
بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع شہر اوڈیسہ میزائلوں کے حملوں کی زد میں رہا ہے۔

انٹرویو: یوکرین میں ناجائز جنگ کی طوالت پر حیران ہوں، ڈنیز براؤن

© UNOCHA/Alina Basiuk
بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع شہر اوڈیسہ میزائلوں کے حملوں کی زد میں رہا ہے۔

انٹرویو: یوکرین میں ناجائز جنگ کی طوالت پر حیران ہوں، ڈنیز براؤن

امن اور سلامتی

یوکرین میں فوری امن قائم ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا تاہم اقوام متحدہ کے ہزاروں اہلکار وہاں کے لوگوں کو مدد پہنچا رہے ہیں۔ ان میں ایسی آبادیاں بھی شامل ہیں جو محاذ جنگ کے قریب ہونے کی وجہ سے روزانہ حملوں کی زد میں رہتی ہیں۔

روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین کے خلاف بڑے پیمانے پر حملہ شروع کیا تھا۔ اس عرصہ میں 40 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر اور 60 لاکھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جنگ میں یوکرین کے بنیادی ڈھانچے، طبی مراکز اور سکولوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ 

یوکرین کے لیے اقوام متحدہ کی نمائندہ (ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر) ڈنیز براؤن نے یو این نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا ہے کہ ادارے کے عملے اور شہریوں کو لاحق خطرات کے باوجود ملک میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ 

ڈنیز براؤن: میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یوکرین کے کئی علاقوں میں تقریباً روزانہ حملے ہو رہے ہیں۔ لوگوں میں خوف یہ پایا جاتا ہے کہ نجانے آئندہ کیا ہو گا۔ وہ روزانہ بم دھماکوں کی آوازیں سنتے اور سوچتے ہیں کہ آیا ان کا دفاعی نظام حملہ آور ڈرون طیاروں اور میزائلوں کو روک پائے گا یا نہیں۔ 

حکومت اور امدادی ادارے باہم مل کر حملوں سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو نفسیاتی مدد کی فراہمی، گھروں کی کھڑکیوں، دروازوں اور چھتوں کی تعمیر اور خوراک و نقد امداد کی فراہمی میں مدد دیتے ہیں۔

تاہم ان حملوں کے نتیجے میں انسانی جانوں، گھروں اور احساسِ تحفظ کے علاوہ سکولوں، طبی مراکز، ڈاکٹروں، بنیادی خدمات اور بجلی کی فراہمی کے نظام کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ 

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں ان لوگوں کی مدد میں مہارت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ ہمیں تقریباً روزانہ یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔

ڈنیز براؤن کی یوکرین میں اقوام متحدہ کے عملے کے دوسرے ارکان کے ساتھ ایک تصویر۔
UN Ukraine/ Saviano Abreu
ڈنیز براؤن کی یوکرین میں اقوام متحدہ کے عملے کے دوسرے ارکان کے ساتھ ایک تصویر۔

یو این نیوز: آپ ملک بھر میں ان امدادی اقدامات کو کیسے مربوط کرتے ہیں؟ 

ڈنیز براؤن: یوکرین کے مختلف علاقوں میں ہمیں دیگر اداروں کا ساتھ بھی میسر ہے۔ اس حوالے سے ہنگامی امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ذریعے فوری رابطہ قائم کیا جاتا ہے۔ ہر اوبلاسٹ (یوکرین کا انتظامی علاقہ) سے ملحقہ علاقے میں ہمارا عملہ تعینات ہوتا ہے جو حکام کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

ہمارے پاس 500 شراکت داروں کا نیٹ ورک ہے۔ یہ مقامی امدادی تنظیمیں ہیں جو ایسی جگہوں کے قریب موجود ہوتی ہیں جہاں حملوں کا امکان ہو۔ انہیں ضرورت کے وقت فوری تعینات کیا جاتا ہے اور ہم انہیں مدد مہیا کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھا نیٹ ورک ہے اور ہم اپنی سرگرمیوں کو بہتر انداز میں مربوط کرتے ہیں۔ 

یو این نیوز: کیا آپ کے لیے اب بھی پورے ملک کا دورہ کرنا ممکن ہے؟ 

ڈنیز براؤن: یوکرین میں اقوام متحدہ کا عملہ 3,000 سے زیادہ اہلکاروں پر مشتمل ہے جن میں بیشتر لوگ خارکیئو، نیپرو، میکولائیو، اوڈیسا، ژیپوریزیا اور دونیسک میں تعینات ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں روزانہ حملے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور اقوام متحدہ کے دیگر اعلیٰ سطحی حکام کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ میں اقوام متحدہ کے مقامی و بین الاقوامی عملے سے یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ خارکیئو میں بیٹھ کر روزانہ شہر پر برستے میزائلوں کا سامنا کرتے رہیں جبکہ میں وہاں ان سے ملنے نہ جاؤں۔

میں یہی کچھ کر رہی ہوں اور اس سے مجھے علاقائی اور مقامی حکام سے بات کرنے اور امدادی قافلے محاذ جنگ کے قریبی علاقوں کی جانب بھیجنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ 

لہٰذا، حکام یہ بات جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یوکرین میں اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ اعلیٰ ترین عہدیدار ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے یہ ایک انتہائی طاقتور پیغام ہے۔ 

یہ محض امدادی سامان کی فراہمی کا معاملہ نہیں۔ یہ ہماری جانب سے ایک نہایت اہم پیغام بھی ہے کہ خواہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو ہم ان کا ساتھ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

جنگ سے تباہ حال شمالی یوکرین کا ایک علاقہ۔
© UNDP/Oleksandr Ratushniak
جنگ سے تباہ حال شمالی یوکرین کا ایک علاقہ۔

یو این نیوز: کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ جنگ اس قدر طوالت اختیار کر لے گی؟ 

ڈنیز براؤن: مجھے جنگ کے اس قدر طول پکڑنے پر حیرت ہے کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں تھی۔ یوکرین کے لوگوں کو تشدد، نقصان اور دکھ کا سامنا ہے۔ میں چاہوں گی کہ یہ جنگ ختم ہو جائے۔

ملکی معیشت تباہ حال ہے، شہری تنصیبات کو باقاعدگی سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں، خاندان بکھر رہے ہیں اور صنفی بنیاد پر تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ ان تمام چیزوں کا یوکرین کے لوگوں کی زندگیوں پر اثر پڑا ہے۔ 

یوکرین میں امن کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو اپنی معمول کی زندگی کی جانب واپس لوٹنا ہے۔ جنگ شروع ہی نہیں ہونا چاہیے تھی۔

یو این نیوز: مستقبل قریب میں اس تنازع کا اختتام دکھائی نہیں دیتا۔ کیا آپ مزید کئی برس یہ جنگ جاری رہنے کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے امدادی اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں؟ 

ڈنیز براؤن: میں امدادی امور کی انجام دہی کے لیے معلومات اور اعدادوشمار پر انحصار کرتی ہوں۔ ان لوگوں کی بے پایاں ضروریات ہیں۔ اگر یہ جنگ کل ختم ہو جائے تو تب بھی اس ملک کو بہت سی ضروریات درپیش رہیں گی۔

جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو اور اس تباہی کے اثرات سے نکلنے میں کئی سال لگیں گے۔ اسی لیے میرا اندازہ ہے کہ اس ہولناک اور ناجائز جنگ کا جو بھی نتیجہ ہو، یوکرین کے لوگوں کو مستقبل قریب میں ناصرف انسانی امداد بلکہ بحالی کے حوالے سے بھی مدد کی ضرورت رہے گی۔