انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پناہ گزینوں پر مشتمل ٹیم پیرس اولمپکس میں امید کا پیغام لے کر پہنچے گی

گیارہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تریسٹھ ایتھلیٹ اس سال پیرس میں ہونے والے اولمپکس کے بار کھیلوں میں حصہ لینگے۔
© International Olympic Committee
گیارہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تریسٹھ ایتھلیٹ اس سال پیرس میں ہونے والے اولمپکس کے بار کھیلوں میں حصہ لینگے۔

پناہ گزینوں پر مشتمل ٹیم پیرس اولمپکس میں امید کا پیغام لے کر پہنچے گی

مہاجرین اور پناہ گزین

امسال پناہ گزینوں کی سب سے بڑی ٹیم اولمپک کھیلوں میں شرکت کر رہی ہے جس میں افغانستان کی پہلی خاتون بریک ڈانسر، کیمرون نژاد برطانوی باکسنگ چیمپیئن اور وینزویلا کے نشانہ باز سمیت 11 ممالک کے 36 کھلاڑی شامل ہیں۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر تھامس باخ نے پناہ گزین کھلاڑیوں کے نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اولمپک کھیلوں میں اس دستے کی شمولیت 10 کروڑ سے زیادہ مہاجرین کے لیے امید کا پیغام ہے۔ اس سے دنیا بھر میں اربوں لوگوں کو مہاجرت کے مسئلے کی شدت سے بھی آگاہی ملے گی۔

Tweet URL

اولمپک کھیل 26 جولائی سے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں شروع ہو رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کی ٹیم تیسری مرتبہ ان کھیلوں میں شرکت کر رہی ہے تاہم اس مرتبہ یہ دستہ ماضی کے مقابلے میں کہیں بڑا ہے جو 12 کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لے گا۔

اس ٹیم کی منظوری انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے ایگزیکٹو بورڈ نے دی ہے۔ اس کی تیاری میں ہر کھلاڑی کی کھیل میں مہارت اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے ان کی بطور پناہ گزین حیثیت کی تصدیق کو بطور خاص مدنظر رکھا گیا ہے۔ ان میں اکثریت ایسے کھلاڑیوں کی ہے جو 'آئی او سی' کے سکالرشپ پروگرام سے استفادہ کر چکے ہیں۔ 

کھیل کی انقلابی طاقت

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے کہا ہے کہ اس ٹیم کو جنگوں اور مظالم کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی مضبوطی، ہمت اور امیدوں کا اظہار ہونا چاہیے۔ 

یہ ٹیم اس بات کی بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ کھیلیں ان لوگوں کے لیے انقلابی تبدیلی لا سکتی ہیں جن کی زندگیاں ہولناک حالات سے متاثر ہوئی ہیں۔ کھیل کھلاڑیوں ہی نہیں بلکہ سبھی کی زندگی میں تبدیلی لاتے ہیں۔

پناہ گزینوں کی ٹیم نے پہلی مرتبہ 2016 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں شرکت کی تھی۔ امسال پہلا موقع ہو گا جب یہ ٹیم اولمپک پرچم کے بجائے اپنے جھنڈے تلے ان کھیلوں میں شریک ہو گی۔ اس جھنڈے پر دل کی تصویر اور اس کے ساتھ راستے کی نشاندہی کرنے والے تیر بنے ہیں جن کا رنگ اولمپک پرچم کے پانچ رنگوں سے مشابہ ہے۔ 

ٹیم کی کپتان معصومہ علی زادہ 2020 میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس میں بھی شرکت کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے جھنڈے کی بدولت پناہ گزین کھلاڑیوں میں یکجہتی کا احساس پیدا ہو گا اور انہیں ایک جیسے تجربے کے حامل 10 کروڑ لوگوں کی نمائندگی کا اختیار دے گا۔ 

نمایاں کھلاڑی

اس مرتبہ بریک ڈانس بھی اولمپک کھیلوں کا حصہ ہے جس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والی منیزہ تالاش پناہ گزینوں کی نمائندگی کریں گی۔ اطلاعات کے مطابق وہ اپنے ملک کی پہلی بریک ڈانسر ہیں۔

کیمرون میں پیدا ہونے والی سنڈی اینگامبا 11 برس کی عمر میں برطانیہ منتقل ہو گئی تھیں۔ انہیں ہمیشہ سے کھیلوں میں دلچسپی تھی۔ ابتداً انہوں نے فٹ بال ٹیم میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد ازاں باکسنگ کھیلنے لگیں جو ان کا اصل شوق تھا۔ وہ برطانیہ کی اعلیٰ سطحی امیچور ٹیم کے ساتھ تربیت حاصل کرتی ہیں اور تین مرتبہ قومی چیمپیئن بن چکی ہیں۔ انہوں نے اولمپک کھیلوں میں جگہ بنانے والی پہلی پناہ گزین باکسر کی حیثیت سے بھی تاریخ رقم کی تھی۔

شام سے تعلق رکھنے والے عدنان خانقان کو بچپن سے ہی جوڈو کا شوق تھا۔ اپنے ملک میں انہوں نے قومی جونیئر ٹیم میں شمولیت اختیار کی اور اس کی جانب سے بین البراعظمی مقابلوں میں حصہ لیا۔ جنگ کے باعث وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اب جرمنی میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2016 کے اولمپک کھیلوں میں پناہ گزینوں کی ٹیم کو دیکھ کر انہیں حقیقی امید کا احساس ہوا تھا۔

باصلاحیت نشانہ باز فرانسسکو ایڈیلو کا تعلق وینزویلا سے ہے جہاں وہ اس کھیل میں سب سے اچھے کھلاڑی مانے جاتے تھے۔ وہ ایک تربیتی اکیڈمی بھی چلاتے تھے جہاں انہوں نے بہت سے لوگوں کو کھیلوں کے لیے تیار کیا۔ نامساعد حالات کے باعث انہیں اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور اب وہ میکسیکو میں رہتے ہیں۔

دنیا بھر کے لوگ پیرس اولمپکس کے لیے پناہ گزینوں کی ٹیم کی تیاریوں کو سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔