انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اسرائیلی فوجی کارروائی: رفح چھوڑنے پر مجبور آٹھ لاکھ لوگ دربدر

ایک فلسطینی خاندان رفح میں اسرائیلی زمینی فوجی کارروائی کے خدشے کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہے۔
© UNICEF/Eyad El Baba
ایک فلسطینی خاندان رفح میں اسرائیلی زمینی فوجی کارروائی کے خدشے کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہے۔

اسرائیلی فوجی کارروائی: رفح چھوڑنے پر مجبور آٹھ لاکھ لوگ دربدر

امن اور سلامتی

اسرائیل کی عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد غزہ کے جنوبی علاقے رفح سے آٹھ لاکھ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے بے گھر ہونے والوں کو تحفظ اور انسانی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔

'انرا' کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر غزہ کی بہت بڑی آبادی دربدر ہو گئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے رفح کو خالی کرنے کا حکم دیے جانے کے بعد لوگ وسطی غزہ اور خان یونس کا رخ کر رہے ہیں جنہوں نے تباہ شدہ عمارتوں سمیت جہاں جگہ ملے پناہ لے رکھی ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ جب لوگ محفوط راستے یا تحفط کے بغیر نقل و حرکت کرتے ہیں تو وہ حملوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ انہیں ہر مرتبہ نئے سرے سے زندگی شروع کرنا پڑتی ہے۔ رفح سے نکلنے والے لوگ جن علاقوں کا رخ کر رہے ہیں وہاں نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی نکاسی آب کی سہولیات موجود ہیں۔

اسرائیل نے لوگوں کو جنوبی ساحلی علاقے المواسی کی جانب جانے کا حکم بھی دے رکھا ہے تاہم اس جگہ نہ تو کوئی عمارت ہے اور نہ ہی سڑکوں کا کوئی وجود ہے۔ 14 مربع کلومیٹر زرعی علاقے میں لوگوں کو محفوظ اور باوقار انداز میں ہنگامی انسانی امداد پہنچانے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔حالیہ جنگ سے قبل تقریباً چار لاکھ لوگ المواسی میں مقیم تھے۔ تاہم اب یہاں بہت بڑی تعداد میں پناہ گزین بھی آ چکے ہیں اور مزید لوگوں کی گنجائش نہیں رہی۔

محفوظ علاقہ ندارد

فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ غزہ کے لوگ 'محفوظ' علاقوں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ جب بھی ایسے احکامات دیے جاتے ہیں تو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی محفوظ علاقہ نہیں ہے اور کسی بھی جگہ کو محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انسانی امداد اور بنیادی ضرورت کی اشیا نہ ہونے کے باعث حالات بدترین صورت اختیار کر رہے ہیں۔ امدادی اداروں کے پاس لوگوں کو فراہم کرنے کے لیے خوراک اور دیگر اشیا باقی نہیں رہیں۔ 

مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد تاحال بند ہے جبکہ کیریم شالوم کا سرحدی راستہ عسکری کارروائیوں کی زد میں ہونے کے باعث غیرمحفوظ ہے۔ غزہ بھر میں ایندھن کی شدید قلت ہے جس کے باعث امداد کی تقسیم کا کام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ 

زمینی راستوں کی اہمیت

انہوں نے بتایا ہے کہ 6 مئی کے بعد جنوبی غزہ میں صرف 33 امدادی ٹرک ہی داخل ہو سکے ہیں جو کہ بڑھتی ہوئی امدادی ضروریات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگرچہ غزہ کے ساحل پر امریکہ کی تعمیر کردہ تیرتی گودی پر امداد کی پہلی کھیپ کا پہنچنا خوش آئند ہے لیکن یہ زمینی راستوں کا متبادل نہیں ہے جو امداد پہنچانے کا سب سے زیادہ قابل عمل، موثر اور محفوظ ذریعہ ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان کے دفتر نے بتایا ہے کہ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے تصدیق کی ہے کہ اس گودی پر آنے والی امداد لے کر 10 ٹرک اس کے گودام میں پہنچ گئے یہں۔ 

اس امداد میں 'ڈبلیو ایف پی' کے لیے مقوی بسکٹ، پاستا اور دالیں بھی شامل ہیں۔ کمشنر جنرل نے کہا ہے کہ غزہ میں تمام سرحدی راستے کھولے جانے چاہئیں اور ان تک محفوظ رسائی میسر ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہوا تو امداد کی قلت اور تباہ کن انسانی صورتحال برقرار رہے گی۔ 

جنگ بندی کی اپیل

فلپ لازرینی نے متحارب فریقین سے کہا ہے کہ وہ تمام شہریوں تک انسانی امداد کی تیزرفتار اور بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنائیں۔ نقل مکانی کرنے والی آبادی کو اپنی بقا کے لیے درکار بنیادی ضرورت کی اشیا جیسا کہ خوراک، پانی، پناہ، صحت و صفائی کے سامان اور تحفظ تک رسائی ہونی چاہیے۔

امدادی ٹیموں کو ضرورت مند لوگوں تک محفوظ اور آزادانہ رسائی ہونا بھی ضروری ہے۔ متحارب فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر جگہ شہریوں اور شہری تنصیبات کا تحفظ کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ جنگ بندی کے لیے اتفاق رائے کا وقت ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ کشیدگی میں مزید اضافے سے شہریوں کا مزید نقصان ہو گا اور ایسا امن و استحکام لانا ممکن نہیں رہے گا جس کی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو اشد ضرورت ہے اور جس کے وہ حق دار ہیں۔