انسانی کہانیاں عالمی تناظر

رفح سے ساڑھے چار لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور

بمباری کے دوران رفح سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
UNRWA
بمباری کے دوران رفح سے دھواں اٹھ رہا ہے۔

رفح سے ساڑھے چار لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور

امن اور سلامتی

غزہ کے جنوبی شہر رفح سے 450,000 افراد انخلاء کر گئے ہیں جس کے بعد علاقے میں ویرانی کا سماں ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے کہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے لوگ تھکے ماندے، بھوکے اور خوفزدہ ہیں جن کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے انخلا کے احکامات جاری ہونے کے بعد بیشتر لوگ وسطی علاقوں کی جانب جا چکے ہیں۔

Tweet URL

'انرا' کی ترجمان لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ 6 مئی کے بعد رفح کا مرکزی علاقہ لوگوں سے خالی ہو چکا ہے جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ چند ہی ہفتے قبل یہاں 10 لاکھ لوگ پناہ گزین تھے۔ ان میں بیشتر پہلے ہی غزہ کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے تھے اور اب فوری جنگ بندی ہی ان کی تکالیف کے خاتمے کی واحد امید ہے۔ 

شمال اور جنوب میں بمباری

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے شہریوں اور امدادی کارروائیوں کے لیے عدم تحفظ کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کو محفوظ راستہ، جائے پناہ اور اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے مناسب وقت ملنا چاہیے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے رفح کی سرحد بند کیے جانے کے بعد غزہ میں بنیادی ضروریات زندگی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ 'اوچا' نے بتایا ہے کہ سوموار تک یہ راستہ بند تھا جبکہ کیریم شالوم کے راستے امداد کی محفوظ انداز میں ترسیل کی راہ میں رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہیں۔ 

غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں فضائی حملے بدستور جاری ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، اس نے 24 گھنٹوں میں 120 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ رفح کے مشرقی علاقے، غزہ شہر اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے قریب زمینی حملوں اور شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ رفح پر اسرائیل کے حملے سے طبی سہولیات تک رسائی اور لوگوں کو صحت کی خدمات اور سازوسامان کی فراہمی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ علاقے میں ایندھن دستیاب نہیں ہے جبکہ ادارےکو اپنی امدادی سرگرمیوں کے لیے روزانہ 46 ہزار لٹر پٹرول درکار ہوتا ہے۔

ہلاکتوں کی تعداد

اقوام متحدہ کے اداروں نے ایسے غلط دعووں کی نفی کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے بتائی گئی 35 ہزار ہلاکتوں میں سے 25 ہزار کی تصدیق ہونے کے بعد ہلاک و زخمی ہونے والوں کی مجموعی تعداد اب کم ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان لز تھروسیل نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ علاقے میں خواتین اور بچوں سمیت 35 ہزار افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ملبے تلے دبے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ نہیں رہے۔ 

 ڈبلیو ایچ او کے ترجمان کرسچیئن لنڈمیئر نے کہا ہے کہ غزہ میں بہت بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں جن کی تصدیق کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اندازے کے مطابق اب تک 18 ہزار افراد کی شناخت ہونا یا انہیں ڈھونڈنا باقی ہے۔ ان میں وہ 10 ہزار لاشیں بھی شامل ہیں جو مل چکی ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے آٹھ ہزار افراد کی لاشیں تاحال نہیں مل سکیں۔اب تک جن 24,686 لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے ان میں 40 فیصد (10,006) مرد، 20 فیصد (4,959) خواتین اور 32 فیصد (7,797) بچے ہیں۔ ان کے علاوہ 8 فیصد (1,924) معمر افراد بھی ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔

لاپتہ افراد

ان کا کہنا ہے کہ جو 10 ہزار افراد لاپتہ ہیں وہ ممکنہ طور پر تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جو دوران جنگ عام طور پر گھروں پر ہوتے ہیں جبکہ مردوں کو خوراک کے حصول اور کام کاج کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ 

لز تھروسیل نے جنگ میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی شناخت کے لیے جاری کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سی لاشیں ملبے تلے، اجتماعی قبروں میں یا سڑکوں کے کنارے موجود ہو سکتی ہیں۔ چونکہ لڑائی اور فائرنگ کے باعث بہت سے علاقے تاحال قابل رسائی نہیں ہیں اس لیے فی الوقت ان تک رسائی اور ان کی شناخت ممکن نہیں۔