انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان: صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کا یونیسف کا چار سالہ منصوبہ

پاکستان میں ایک لڑکی سڑک کنارے ماسک بیچ رہی ہے۔
ADB/Rahim Mirza
پاکستان میں ایک لڑکی سڑک کنارے ماسک بیچ رہی ہے۔

پاکستان: صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کا یونیسف کا چار سالہ منصوبہ

خواتین

یونیسف پاکستان نے ملک میں 10 تا 19 سال عمر کی لاکھوں لڑکیوں کی زندگی میں پائیدار تبدیلی لانے اور انہیں ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنی چار سالہ قومی صنفی حکمت عملی کا آغاز کر دیا ہے۔

اس حکمت عملی پر موثر انداز میں عملدرآمد کے نتیجے میں شہری و دیہی علاقوں میں صنفی عدم مساوات پر قابو پانے اور جسمانی معذوری کی حامل سمیت تمام لڑکیوں اور خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

Tweet URL

پاکستان میں نوعمر لڑکیوں کو تعلیم، صحت، غذائیت اور بہبود کے حوالے سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملک میں ایک کروڑ 90 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو نوعمری میں بیاہی گئی تھیں۔ اس مسئلے کی شدت کے حوالے سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ علاوہ ازیں، نوعمر لڑکیوں کی 54 فیصد تعداد 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی حاملہ ہو جاتی ہے جس سے ماں اور بچے دونوں کی صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ 88 فیصد نوعمر لڑکیاں غربت میں زندگی گزارتی ہیں جس سے ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

یہ حکمت عملی 2027 تک کے لیے تیار کی گئی ہے اور اس پر فوری عملدرآمد ہو گا۔ نوعمر لڑکیوں کے قائدانہ کردار اور بہبود کے لیے یونیسف کے عزم کا اعادہ کرتی ہے اور اس کے تحت مقررہ وقت میں نتائج کے حصول کا ہدف رکھا گیا ہے۔

تعلیم اور کام کے مواقع

حکمت عملی کے اجرا پر پاکستان میں یونیسف کی نائب نمائندہ انوسا کابورے نے کہا ہے کہ ملک میں لاکھوں بچوں کو روزمرہ زندگی میں تباہ کن مسائل کا سامنا ہے اور ان بچوں میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔ عام طور پر انہیں طبی نگہداشت جیسی بنیادی سماجی خدمات بھی میسر نہیں ہوتیں۔ نوعمری کی شادی، غربت اور سماجی رسوم و رواج کے باعث انہیں سکول چھوڑنا پڑتا ہے۔

اگر تمام لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم اور کام کے مواقع ملیں تو وہ ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال کر ملک کو خوشحال بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ اگر کسی ملک کی نصف آبادی پس ماندہ رہ جائے تو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ 

ان کا کہنا ہے کہ یونیسف حکومت، سول سوسائٹی کے اداروں، مقامی لوگوں، لڑکیوں اور خواتین، مردوں اور لڑکوں کے تعاون سے اس اہم مسئلے پر قومی مکالمے میں تبدیلی لانے کا متمنی ہے۔

پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو نوعمری میں بیاہی گئی تھیں۔
IRIN/Kamila Hyatt
پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو نوعمری میں بیاہی گئی تھیں۔

لڑکیوں کا فائدہ سب کا فائدہ

خواتین کی صورتحال پر قومی کمیشن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے تمام لوگوں بالخصوص لڑکیوں کے لیے یکساں مواقع کی دستیابی یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ لڑکیوں پر سرمایہ کاری سے معاشرے کی تمام اصناف اور طبقات کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے آمدنی بڑھتی ہے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور ان فوائد سے پورا ملک استفادہ کرتا ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ جب لڑکیوں کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی اور مدد ملتی ہے تو وہ اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لے سکتی ہیں اور ان کے لیے روشن مستقبل کے راستے کھل جاتے ہیں۔ 

حکمت عملی کے اہم نکات

یونیسف کی شروع کردہ حکمت عملی کے تحت لڑکیوں کے قائدانہ کردار، ان کی آواز اور اختیار میں اضافے کے لیے کام کیا جائے گا۔ اس کا مقصد لڑکیوں کو تبدیلی لانے کی طاقت دینا ہے۔ یہ حکمت عملی انہیں زندگی کے ہر پہلو میں قیادت کے لیے درکار صلاحیتوں اور اعتماد کی فراہمی میں مددگار ہو گی۔

لڑکیوں کے ساتھ روا رکھے گئے نقصان دہ طرزعمل اور رویوں پر قابو پایا جائے گا۔ اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی بدولت ایسے رویوں اور طرزہائے عمل میں تبدیلی لائے جائے گی جو صنفی عدم مساوات کو دوام دیتے ہیں۔ صنفی حوالے سے موجودہ سماجی تصورات میں تبدیلی لانے کے لیے یونیسف بااثر رہنماؤں، مذہبی شخصیات، لڑکوں اور مردوں کے ساتھ کام کرے گا۔ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے بھی مثبت پیغامات کو اجاگر کیا جائے گا۔

سال 2022 میں آئے تباہ کن سیلاب میں بے گھر ہونے والے گھرانوں کی ایک خیمہ بستی میں یونیسف کے تعاون سے بچوں کے لئے قائم کردہ تحفظ مرکز میں نوعمر لڑکیاں لڈو کھیل رہی ہیں۔
© UNICEF/Sami Malik

صنفی مساوات کے پروگراموں کو مضبوط بنایا اور بڑھایا جائے گا تاکہ نوعمر لڑکیاں خاص طور پر تعلیم، صحت، غذائیت اور سماجی تحفظ کے حوالے سے معیاری خدمات حاصل کر سکیں۔ اس ضمن میں لڑکیوں کے حوالے سے جوابدہی اور انہیں تحفظ دینے کے اقدامات سے بھی مدد لی جائے گی۔

اس حکمت عملی کی بدولت صنفی اعدادوشمار، بنیادی ڈھانچے اور بچوں کو تحفظ دینے کے اقدامات میں قومی اور صوبائی سطح پر پائی جانے والی رکاوٹوں اور خامیوں کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔