انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کووڈ۔19 مریضوں پر جراثیم کش ادویات کا استعمال ’خطرناک نتائج کا حامل‘

دنیا بھر میں ایسی جراثیم کش ادویات تواتر سے استعمال ہوئیں جن سے دواؤں کے خلاف جراثیمی مزاحمت میں اضافے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
Photo: WHO/Jim Holmes
دنیا بھر میں ایسی جراثیم کش ادویات تواتر سے استعمال ہوئیں جن سے دواؤں کے خلاف جراثیمی مزاحمت میں اضافے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

کووڈ۔19 مریضوں پر جراثیم کش ادویات کا استعمال ’خطرناک نتائج کا حامل‘

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ۔19 سے متاثرہ مریضوں کے علاج میں جراثیم کش ادویات (اینٹی بائیوٹیک) کا حد سے زیادہ استعمال ہوا جس سے دواؤں کے خلاف جراثیمی مزاحمت مزید بڑھ جانے کا خطرہ ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' نے ایک انتباہ میں کہا ہے کہ اگرچہ ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والےکووڈ کے صرف آٹھ فیصد مریض ایسے تھے جنہیں جراثیم کش ادویات کی ضرورت تھی لیکن 'حفظ ماتقدم' کے طور پر تین چوتھائی مریضوں کو یہ دوائیں دے دی گئیں۔

ادارے کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس کا کہنا ہے کہ 'ڈبلیو ایچ او' نے کبھی کووڈ۔19 کے مریضوں کو جراثیم کش ادویات دینے کے لیے نہیں کہا۔

نقصان دہ 'علاج'

'ڈبلیو ایچ او' کی جمع کردہ معلومات کے مطابق سب سے زیادہ جراثیم کش ادویات کووڈ۔19 سے بری طرح متاثرہ مریضوں کو دی گئیں۔ ایسے مجموعی مریضوں میں یہ ادویات لینے والوں کا تناسب 81 فیصد تھا۔ کووڈ کے نسبتاً معتدل حملے سے متاثرہ مریضوں میں جراثیم کش ادویات لینے والوں کی تعداد افریقہ میں سب سے زیادہ رہی جہاں ایسے 79 فیصد مریضوں پر یہ دوائیں آزمائی گئیں۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسی جراثیم کش ادویات تواتر سے استعمال ہوئیں جن سے دواؤں کے خلاف جراثیمی مزاحمت میں اضافے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ 

'ڈبلیو ایچ او' میں ادویات کے خلاف مزاحم جراثیموں سے متعلق شعبے کی سربراہ ڈاکٹر سلویا برٹینگنولیو نے کہا ہے کہ جب کسی مریض کو جراثیم کش دوائیں درکار ہوں تو عموماً ان کے ضمنی اثرات یا ان کے خلاف جراثیمی مزاحمت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جب ان کا استعمال غیرضروری ہو تو ان سے فائدے کے بجائے صرف نقصان ہوتا ہے اور ان کے خلاف جراثیموں کی مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔

ایک خاتون کا کووڈ۔19 کے لیے طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔
© WHO

غیرضروری دوائیں

'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق کووڈ وبا کے دوران مغربی الکاہل کے خطے میں 33 فیصد مریضوں پر جراثیم کش ادویات آزمائی گئیں جبکہ مشرقی بحیرہ روم اور افریقی خطے میں ایسے مریضوں کی تعداد 83 فیصد تھی۔ 2020 اور 2022 کے درمیان یورپ اور براعظم ہائے امریکہ میں کووڈ کے مریضوں پر جراثیم کش ادویات کے استعمال میں کمی آئی جبکہ افریقہ میں اضافہ ہو گیا۔ 

ترجمان کا کہنا ہے کہ ادارے نے ابتدا سے ہی واضح ہدایات دی تھیں کہ کووڈ کے تمام مریضوں کو جراثیم کش ادویات کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس حوالے سے کوئی رہنمائی یا سفارشات موجود نہیں تھیں۔ تاہم، لوگوں کو پہلی مرتبہ ایسی صورتحال سے واسطہ پڑا تھا اسی لیے بیشتر نے یہی سمجھا کہ شاید جراثیم کش ادویات بھی اس بیماری کے خلاف کسی نہ کسی طور کارگر ہوں گی۔ 

ہوشمندانہ استعمال

'ڈبلیو ایچ او' نے بتایا ہے کہ جراثیم کش ادویات کے استعمال سے کووڈ۔19 مریضوں کے علاج میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بجائے ان ادویات سے ممکنہ طور پر ایسے مریضوں کو نقصان ہی ہوا ہو گا جنہیں جراثیمی انفیکشن نہیں تھی۔ 

ادارے نے لوگوں پر ان دواؤں کے غیرضروری منفی اثرات کو کم سے کم رکھنے کے لیے جراثیم کش ادویات کے ہوشمندانہ استعمال کو مزید بہتر بنانے کے لیے کہا ہے۔ 

یہ معلومات 'ڈبلیو ایچ او' کی جانب سے جنوری 2020 سے مارچ 2023 تک 65 ممالک میں 450,000 مریضوں کے جائزے پر مبنی ہیں۔

جراثیم کش ادویات کی وسیع اصطلاح جراثیموں، وائرس، فنگی اور طفیلیوں کا خاتمہ کرنے والی ادویات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
CDC

سُپر بگ کیا ہیں؟

جراثیم کش ادویات کی وسیع اصطلاح جراثیموں، وائرس، فنگی اور طفیلیوں کا خاتمہ کرنے والی ادویات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ ادویات انسانوں، جانوروں اور پودوں میں ان جرثوموں سے پھیلنے والی انفیکشن کو روکنے کے  لیے استعمال ہوتی ہیں۔ جو جرثومے ان ادویات کے خلاف زندہ رہنے کی قوت حاصل کر لیتے ہیں انہیں عام طور پر 'سُپربگ' بھی کہا جاتا ہے۔

جب جراثیم، وائرس، فنگی اور طفیلیے وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کر لیتے ہیں تو ان پر ادویات اثر نہیں کرتیں۔ اس طرح انفیکشن کا علاج مشکل ہو جاتا ہے اور بیماری کے پھیلاؤ، امراض کے شدت اختیار کرنے اور اموات کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ان حالات میں دوائیں غیرموثر ہو جاتی ہیں اور انفیکشن جسم میں موجود رہتا ہے جو ایک سے دوسرے انسان کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔