انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سلامتی کونسل میں ویٹو کے بڑھتے استعمال پر جنرل اسمبلی میں بحث

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ وڈ فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کی اس سال 18 اپریل کو پیش کی گئی قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کرتے ہوئے۔
UN Photo/Manuel Elías
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ وڈ فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کی اس سال 18 اپریل کو پیش کی گئی قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کرتے ہوئے۔

سلامتی کونسل میں ویٹو کے بڑھتے استعمال پر جنرل اسمبلی میں بحث

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کو غزہ، مالی، شام، یوکرین اور شمالی کوریا کے معاملے میں امن و سلامتی کے اہم مسائل سے اجتماعی طور پر نمٹنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے ارضی سیاسی تناؤ اور بحرانوں کے وقت فوری اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں خاموش تماشائی بنے رہنا اور ویٹو کا بے دریغ استعمال امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ناصرف کونسل بلکہ اقوام متحدہ کی موثر اقدامات کی صلاحیت کو بھی ختم کر دے گا۔ 

ڈینس فرانسس نے یہ بات اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں کہی ہے جو اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے فلسطین کی درخواست کو سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے پر بلایا گیا ہے۔ اسمبلی ایسے وقت اس ویٹو پر بحث کر رہی ہے جب ویٹو کے استعمال پر جنرل اسمبلی کا اجلاس لازمی طور پر بلائے جانے کی قرارداد کی منظوری کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ قرارداد یوکرین پر روس کے حملے کے بعد لیکٹینسٹائن نے پیش کی تھی۔

سلامتی کونسل کے مستقل ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ کو کسی بھی مسئلے پر پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو یا مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان پانچوں ممالک میں سے کوئی ایک بھی کسی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دے تو اسے کونسل کی منظوری نہیں مل سکتی۔

فائدہ یا نقصان؟

منگل کو اسمبلی میں ہونے والی بحث کے دوران متعدد ممالک کے سفیروں نے کہا کہ فلسطین کے معاملے میں اور غزہ میں جاری جنگ پر چھ مرتبہ ویٹو کا اختیار استعمال ہو چکا ہے۔ بعض سفیروں نے کونسل میں فوری اصلاحات پر زور دیا تاکہ ویٹو کے استعمال کو محدود کیا جا سکے یا اس اختیار کو سرے سے واپس لیا جا سکے۔ 

ڈینس فرانسس نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ اور کونسل سے متفقہ اقدامات اور آئندہ نسلوں کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دینے کی توقع رکھی جاتی ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد 262/76 کی بدولت ویٹو کے استعمال پر اقوام متحدہ کے تمام ارکان کی رائے سامنے آتی ہے۔ 

فیصلہ کن اقدامات کی فوری ضرورت اور کونسل کی موجودہ بے عملی کے مابین واضح تضاد کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ کونسل میں پایا جانے والا ڈیڈلاک ناقابل قبول ہے تاہم اس سے تیزتر اقدامات کی اہمیت بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اگر اس ضمن میں کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو اقوام محدہ کی اہمیت پر اٹھنے والے سوالات بڑھتے جائیں گے اور ادارے پر اعتماد میں کمی آئے گی جبکہ ہر ویٹو کو دنیا کی اجتماعی ناکامی سمجھا جائے گا۔ 

ویٹو کے استعمال میں اضافہ

اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سلامتی کونسل میں 320 مرتبہ ویٹو کا اختیار استعمال ہو چکا ہے۔ 2022 کے آغاز میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جنرل اسمبلی میں سلامتی کونسل کے ارکان میں تعاون بڑھانے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اس اختیار سے 13 مرتبہ کام لیا گیا ہے۔ 

دوسری جانب، جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قراردادوں کا اخلاقی و سیاسی وزن ضرور ہوتا ہے لیکن سلامتی کونسل سے برعکس ان کی پابندی کسی ملک پر قانوناً لازمی نہیں ہے۔ 

حالیہ اجلاس میں ہونے والی بحث کے دوران 50 سے زیادہ ممالک کے سفیروں نے ویٹو کے استعمال اور اس کے اثرات پر خیالات کا اظہار کیا۔ سلامتی کونسل کے بعض مستقل ارکان نے ویٹو کے اپنے حق کی حمایت میں دلائل بھی دیے۔

اقوام متحدہ میں روس کے نائب مستقل نمائندے دمتری پولیانسکی۔
UN Photo/Evan Schneider

ویٹو کے بغیر نقصان ہو گا: روس

اقوام متحدہ میں روس کے نائب مستقل نمائندے دمتری پولیانسکی نے کہا کہ امریکہ نے غزہ میں اسرائیل کو عسکری کارروائیوں کی کھلی چھوٹ دینے اور اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے اس کے درخواست پر چار مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا۔ تاہم روس اور چین نے رمضان کے مہینے میں جنگ بندی کے لیے 10 غیرمستقل ارکان کی قرارداد کو منظور کرانے کے لیے امریکہ کی قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ روس اور چین کا یہ اقدام درست اور عالمی برادری کی اکثریت کی خواہش کا عکاس تھا اور اس صورتحال سے ویٹو کے اختیار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ 

روس کے سفیر کا کہنا تھا کہ ویٹو کی اقوام متحدہ کے نظام میں خاص اہمیت ہے اور اس کے بغیر سلامتی کونسل ایسا ادارہ بن جائے گی جس میں ظاہری اکثریت کی بنیاد پر مشکوک فیصلے لیے جانے لگیں گے جن پر عملدرآمد عملاً ناممکن ہو گا۔ ویٹو ایک انتہائی قدم ہے جو ایسے حالات میں لیا جاتا ہے جب کسی معاملے میں دیگر اقدامات کی گنجائش نہ ہو۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ وڈ۔
UN Photo/Evan Schneider

ویٹو پر بات چیت کے لیے تیار ہیں: امریکہ 

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ وڈ نے کہا کہ ویٹو کا اختیار بہت اہم ہے اور اس سے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان پر خصوصی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ 

اگرچہ بعض اوقات اس کا استعمال متنازع ہوتا ہے تاہم اس سے سلامتی کونسل کی کارروائیوں کے متنازع ترین پہلوؤں میں شفافیت اور جوابدہی بڑھانے کی اہمیت بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ امریکہ اس مشکل مسئلے پر کھل کر اور صاف گوئی سے بات چیت کا متمنی ہے۔