انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایشیا موسمیاتی تبدیلی اور شدت سے بری طرح متاثر، ڈبلیو ایم او رپورٹ

سمندری طوفانوں نے فلپائن میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے (فائل فوٹو)۔
© UNICEF/David Hogsholt
سمندری طوفانوں نے فلپائن میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے (فائل فوٹو)۔

ایشیا موسمیاتی تبدیلی اور شدت سے بری طرح متاثر، ڈبلیو ایم او رپورٹ

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال سب سے زیادہ قدرتی آفات ایشیا میں آئیں اور یہ براعظم عالمی اوسط کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔

'ڈبلیو ایم او' کی جانب سے 2023 میں ایشیا کی موسمی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، دنیا کے سب سے بڑے براعظم میں سال بھر کروڑوں لوگوں کو سیلابوں، طوفانوں اور گرمی کی لہروں سمیت شدید موسمی کیفیات کا سامنا رہا۔

Tweet URL

پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں شدید بارشوں نے تباہی مچائی جبکہ ہمالیہ اور ہندوکش کے خطوں میں نمی کی مقدار معمول سے کم رہی۔ گلیشیئر بدستور تیزرفتار سے پگھلتے رہے جبکہ بحیرہ عرب سمیت ایشیا کے بہت سے سمندروں کی سطح کا درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ 

رپورٹ کے اجرا پر 'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو کا کہنا ہے کہ 2023 ایشیا میں بہت سے ممالک کے لیے اب تک کا گرم ترین سال تھا۔ اس دوران موسمیاتی تبدیلی نے انسانی زندگی اور معیشت پر قدرتی آفات کے اثرات کو اور بھی گمبھیر بنا دیا۔ 

حدت میں اضافہ، نمی میں کمی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس ایشیا کے بہت سے حصوں میں شدید گرمی پڑی۔ سال بھر زمینی سطح کے قریب درجہ حرارت 1991 اور 2020 کے درمیانی عرصہ کی اوسط کے مقابلے میں 0.91 ڈگری سیلسیئس زیادہ رہا۔ یہ اس درجہ حرارت میں اب تک کا دوسرا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ مغربی سائبیریا سے وسطی ایشیا اور مشرقی چین سے جاپان تک اس کی شدت خاص طور پر زیادہ رہی۔ جاپان اور قازقستان کے لیے 2023 اب تک کا گرم ترین سال تھا۔

توران کے نشیبی خطوں (ترکمانستان، ازبکستان اور قازقستان)، ہندو کش (افغانستان، پاکستان) اور ہمالیہ کے بڑے حصوں میں نمی کا تناسب معمول سے کم رہا۔ دریائے گنگا کے قریب اور برہم پترا (انڈیا اور بنگلہ دیش) کے زیریں حصوں میں بھی اسی کیفیت کا مشاہدہ کیا گیا۔ میانمار میں کوہ آراکان اور دریائے میکانگ کے زیریں حصے میں بھی بارشیں معمول سے کم رہیں۔ جنوب مغربی چین میں خشک سالی دیکھی گئی جہاں سال کے تقریباً ہر مہینے میں نمی معمول کی اوسط سے کم رہی۔ 

مجموعی طور پر نمی کے تناسب میں کمی کے باوجود ایشیا بھر کے متعدد خطوں میں شدید بارشیں بھی ہوئیں۔ مئی میں میانمار میں یہی صورتحال رہی جبکہ جون اور جولائی میں انڈیا، پاکستان اور نیپال میں شدید بارشیں ہوئیں جبکہ ستمبر میں ہانگ کانگ میں اب تک کی شدید ترین بارش ریکارڈ کی گئی۔

بڑھتی سطح سمندر

1960 سے 1990 کی دہائی کے درمیانی عرصہ سے عالمی حدت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے تاہم ایشیا میں اس کی رفتار دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ ان حالات میں معاشی نقصان کے ساتھ انسانی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔

گزشتہ برس براعظم میں پانی سے متعلق 79 قدرتی آفات دیکھی گئیں جن میں 80 فیصد سے زیادہ سیلابوں اور طوفان کا نتیجہ تھیں۔ ان واقعات میں 2,000 جانوں کا نقصان ہوا اور 90 لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوئے۔

حدت میں اضافے کے نتیجے میں آبی پھیلاؤ اور گلیشیئروں، برفانی چوٹیوں اور برف کی تہوں کے پگھلنے سے دنیا بھر میں سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ایشیا میں اس اضافے کی شرح گزشتہ تین دہائیوں کی عالمی اوسط سے بھی زیادہ رہی۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال شمال مغربی بحر الکاہل میں سطح سمندر کی حدت اب تک کی بلند ترین سطح پر رہی یہاں تک کہ بحر قطب شمالی میں بھی گرمی کی لہر کا مشاہدہ کیا گیا۔ بحیرہ عرب، جنوبی بحیرہ کارا اور جنوب مشرق بحیرہ لپٹیئو سمیت ایشیا کے بہت سے سمندروں کی سطح کا درجہ حرارت عالمی حدت کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ رہا۔ بحیرہ بارنٹس میں یہ کیفیت اور بھی شدید دیکھی گئی جسے ایسے پانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایورسٹ کے علاقے میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
UN Nepal/Narendra Shrestha
ایورسٹ کے علاقے میں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

پگھلتے گلیشیئر، معدوم ہوتی برف

قطب جنوبی و شمالی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ برف ایشیا کے بلند پہاڑی خطے میں پڑتی ہے جس کے مرکز میں تبت پلیٹو واقع ہے۔ اس علاقے میں تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر گلیشیئر پھیلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ گلیشیئر تیزرفتار سے پگھل رہے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں زیرمشاہدہ رہنے والے 22 گلیشیئروں میں سے 20 کی برف حدت میں اضافے کے باعث تیزی سے پگھل رہی ہے ۔ 

دو سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے صفر ڈگری سیلسیئس یا اس سے کم درجہ حرارت میں رہنے والی زمینی تہہ قطب شمالی میں فضائی درجہ حرارت بڑھنے کے نتیجے میں ختم ہو رہی ہے۔ قطبی یورال اور مغربی سائبیریا کے مغربی علاقوں میں یہ کیفیت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ 

گزشتہ برس گرد کے طوفان، آسمانی بجلی، شدید سردی اور کثیف سموگ کی لہریں بھی موسمی شدت کے ان واقعات میں شامل ہیں جو سال بھر ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے رہے۔ 

بروقت انتباہ کی ضرورت

'ڈبلیو ایم او' اور اس کے شراکت دار قدرتی آفات کے ان اثرات سے بچاؤ کے لیے بروقت آگاہی اور نقصان کو محدود رکھنے کے موثر نظام کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔ اس طرح ناصرف بہت سے زندگیاں بچائی جا سکیں گی بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحرانوں کو شدت اختیار کرنے سے بھی روکا جا سکے گا۔

ایشیا و الکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ایسکیپ) کی ایگزیکٹو سیکرٹری آرمیڈا سلسیاہ علسجابانے کا کہنا ہے کہ بروقت آگاہی اور بہتر تیاری کی بدولت بہت سے علاقوں میں قدرتی آفات کے دوران ہزاروں زندگیوں کو تحفظ ملا ہے۔ 

انہوں نے کہا ہے کہ 'ایسکیپ' اور 'ڈبلیو ایم او' موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے عزائم میں اضافہ کرنے اور اس حوالے سے موثر پالیسیوں کے نفاذ کی رفتار بڑھانے کے لیے مشترکہ طور پر کام جاری رکھیں گے۔ ہر خطے میں موسمی شدت کے واقعات سے بروقت آگاہی یقینی بنانا بھی ان اقدامات کا حصہ ہے تاکہ بڑھتے ہوئے موسمیاتی بحران میں سبھی کو تحفط دیا جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1970 سے 2021 تک شدید موسمی کیفیات کے نتیجے میں براعظم کو 3,612 مرتبہ تباہ کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے واقعات میں 984,263 اموات ہوئیں اور 1.4 ٹریلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ اس عرصہ کے دوران دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی تمام اموات میں سے 47 فیصد ایشیا میں ہوئیں جبکہ منطقہ حارہ کے طوفان ان اموات کا سب سے بڑا سبب رہے۔