انسانی کہانیاں عالمی تناظر

غزہ کی معاشی بحالی کو دہائیاں لگیں گی، یو این رپورٹ

غزہ کے علاقے خان یونس کی ایک عارضی پناہ گاہ میں خواتین کھانا تیار کر رہی ہیں۔
© UNRWA/Ashraf Amra
غزہ کے علاقے خان یونس کی ایک عارضی پناہ گاہ میں خواتین کھانا تیار کر رہی ہیں۔

غزہ کی معاشی بحالی کو دہائیاں لگیں گی، یو این رپورٹ

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ سے غیرمعمولی پیمانے پر معاشی تباہی ہوئی ہے۔ علاقے کی بحالی میں کئی دہائیاں لگیں گی اور اربوں ڈالر درکار ہوں گے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کی معاشی بحالی کے لیے حالیہ جنگ کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے اور علاقے کی تعمیرنو کا عمل بلاتاخیر شروع کیا جانا چاہیے۔ 

رپورٹ میں غزہ کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے نقصان، بحالی کے لیے درکار وقت، غربت اور گھریلو اخراجات پر حالیہ جنگ کے دیرپا اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے سماجی و معاشی نقصانات کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اندازے کے مطابق گزشتہ برس غزہ کے سالانہ جی ڈی پی میں 655 ملین ڈالر یا 24 فیصد کمی واقع ہوئی۔

Tweet URL

تیزرفتار اقتصادی زوال

فوری جنگ بندی اور اس کے ساتھ تعمیرنو کا عمل شروع ہونے کے ساتھ 2007 سے 2022 کے درمیانی عرصہ کی اوسط شرح نمو بھی برقرار رہے تو غزہ کے جی ڈی پی کو 2022 کی سطح پر بحالی کے لیے 2092 تک انتظار کرنا ہو گا۔

2007  میں حماس کے برسراقتدار  آنے کے بعد غزہ زیرمحاصرہ رہا ہے جہاں 2022 تک اوسط شرح نمو 0.4 فیصد رہی۔ 'انکٹاڈ' کا اندازہ ہے کہ 2023 کے ابتدائی نو مہینوں میں علاقے کی معیشت میں 4.5 فیصد تک سکڑاؤ آیا۔ 

تاہم علاقے میں جنگ چھڑ جانے سے معاشی تنزل میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 2023 کے دوران جی ڈی پی میں فی کس 26.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ 

جی ڈی پی میں 10 فیصد کی شرح سے ترقی کے انتہائی پُرامید حالات میں بھی اسے 2006 کی سطح تک پہنچنے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ لگے گا۔ 

کڑے سماجی معاشی حالات

غزہ کے حالات پہلے ہی سنگین ہیں جو کرہ ارض پر سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی 365 مربع کلومیٹر (141 مربع میل) علاقے میں مقیم ہیں۔ 

ان فلسطینیوں کی 80 فیصد آبادی بین الاقوامی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ دو تہائی خط غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے جبکہ جنگ سے پہلے بے روزگاری کی شرح 45 فیصد تھی۔ لوگوں کو صاف پانی، بجلی اور نکاسی آب کے مناسب انتظام تک رسائی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کی گزشتہ عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں عمارتوں اور تنصیبات کو ہونے والے نقصان کی مرمت بھی نہیں ہو سکی۔

آج غزہ کی تقریباً 80 فیصد افرادی قوت بیروزگار ہے جبکہ 37,379 عمارتیں یا علاقے میں 18 فیصد تعمیرات منہدم ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ بیشتر علاقہ ناقابل رہائش ہو چکا ہے جہاں نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے اور لوگوں کو معقول ذرائع آمدنی، پانی تک رسائی، نکاسی آب کا انتظام اور طبی و تعلیمی سہولیات میسر نہیں۔ 

'انکٹاڈ' کے مطابق غزہ میں جنگ سے پہلے کے سماجی معاشی حالات کی بحالی کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی اور بڑے پیمانے پر غیرملکی مدد کی ضرورت پڑے گی۔ حالیہ جنگ میں 85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور معاشی سرگرمی معطل ہے۔

پائیدار امن اور تعمیر نو

رپورٹ میں فلسطینی حکومت کو فوری مدد دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر معاشی سماجی انہدام کو روکا جا سکے۔ 2008 میں غزہ کے لیے سالانہ بین الاقوامی امداد کا حجم 2 ارب ڈالر تھا جو اس کے 27 فیصد جی ڈی پی کا احاطہ کرتی تھی۔ 2022 یہ امداد 550 ملین ڈالر یا اس کے جی ڈی پی کا صرف تین فیصد رہ گئی۔ 

ادارے نے خبردار کیا ہے کہ معاشی بحالی کا مطلب محض جنگ سے پہلے کے حالات کی اُسی انداز میں بحالی نہیں ہونا چاہیے بلکہ علاقے میں پائیدار امن اور تعمیرنو کی ضرورت ہے۔ 

غزہ کی معاشی مشکلات کا سبب 56 سالہ قبضہ اور 17 سالہ محاصرہ ہے۔ حالات میں بہتری لانے کے لیے اس مسئلے کو تفصیلاً سمجھنا اور حقیقت پسندانہ حکمت اختیار کرنا ضروری ہے۔ ترقی کے لیے غزہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی بحالی، تجارتی مقاصد کے لیے بندرگاہ کے قیام اور فلسطینی حکومت کو غزہ کے ساحل کے قریب قدرتی گیس کے کنوؤں سے کام لینے کے قابل بنانا ہو گا۔

'انکٹاڈ' نے واضح کیا ہے کہ غزہ کا بحران جنگ اور محاصرے کے خاتمے کی صورت میں ہی حل ہو سکتا ہے جو کہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بھی ضروری ہے۔