انسانی کہانیاں عالمی تناظر

فرانس سے بچوں کو جنسی استحصال سے تحفظ دینے کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے ماہرین نے فرانس کے حکام سے کہا ہے کہ وہ بچوں کو تحفظ دینے کے معاملے میں 'حفظ ماتقدم' اور 'مطلوبہ احتیاط' کے اصولوں پر عمل کریں۔
UNSPLASH/@sewolff
اقوام متحدہ کے ماہرین نے فرانس کے حکام سے کہا ہے کہ وہ بچوں کو تحفظ دینے کے معاملے میں 'حفظ ماتقدم' اور 'مطلوبہ احتیاط' کے اصولوں پر عمل کریں۔

فرانس سے بچوں کو جنسی استحصال سے تحفظ دینے کا مطالبہ

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے غیرجانبدار ماہرین نے فرانس پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو خونی رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی تشدد سمیت ہر طرح کی جنسی زیادتی سے تحفظ دینے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

ماہرین نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ماؤں کو اپنے بچوں کے تحفظ کی کوشش میں درپیش بدسلوکی سے بچانے کے لیے بھی موثر قدم اٹھائے۔

Tweet URL

ماہرین نے یہ مطالبہ فرانس میں متعدد بچوں کو ان کے والد کی جانب سے جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات پر کیا ہے۔ 

اس معاملے میں سامنے آنے والے الزامات کی رو سے یہ بچے اپنے والد یا دیگر قریبی خونی رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوئے یا انہیں اس کا سنگین خطرہ لاحق تھا۔ ان واقعات میں ایسے جرائم کے ارتکاب سے متعلق مصدقہ اور پریشان کن اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق بات بھی تشویش ناک ہے کہ ایسے الزامات اور ان کی مناسب تحقیقات نہ ہونے کے باوجود ان بچوں کو اپنے والد کی تحویل میں ہی رہنے دیا گیا۔

الزامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش

اقوام متحدہ کے ماہرین نے فرانس کے حکام سے کہا ہے کہ وہ بچوں کو تحفظ دینے کے معاملے میں 'حفظ ماتقدم' اور 'مطلوبہ احتیاط' کے اصولوں پر عمل کریں۔ قانونی کارروائی کے دوران ان اصولوں کو بطور خاص مدنظر رکھا جانا چاہیے تاکہ غیریقینی اور پیچیدہ حالات میں بچوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ انہیں عدالت کی جانب سے ایسے مبینہ ملزموں کو بچوں کی ماؤں کے خلاف ان الزامات کے تحت قانونی کارروائی کی اجازت دینے پر خاص تشویش ہے جن میں کہا گیا ہے کہ وہ بچوں کو اپنے والد سے چھیننا چاہتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طرح بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات کمزور ہوئے اور اصل جرم سے توجہ ہٹ گئی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ایسے مقدمات میں بچے کی بات بھی سنی جانی چاہیے اور اس کے خیالات کا احترام ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں بچے کو والدین میں سے کسی ایک کے حوالے کیے جانے کے معاملے میں اس کے بہترین مفادات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ 

نفاذ قانون میں بہتری کا مطالبہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے پریشان کن حالات سے بچنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جانا ضروری ہیں جن میں بچے اور ان کی مائیں اپنی ضروریات پر مناسب توجہ نہ دیے جانے کے باعث منفی طور سے متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے بچوں اور ان کی ماؤں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کی موثر نگرانی اور ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے نفاذ قانون و انصاف کے حکام کی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت بھی واضح کی ہے۔ 

ماہرین فرانس میں 'بچوں کے ساتھ خونی رشتہ داروں کے جنسی تعلقات اور ان سے جنسی بدسلوکی کی روک تھام کے آزاد کمیشن' کے اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس معاملے میں کمیشن کی تحقیقات کے نتائج ماہرین کی جانب سے فرانس کی حکومت کے سامنے اٹھائے گئے خدشات کی تصدیق کرتے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ریم السالم۔
UN News
خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ریم السالم۔

شکایت نمٹانے کا طریقہ کار

فرانس بچوں کے حقوق اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے معاہدوں کا فریق ہے۔ ماہرین نے ملک پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے ان معاہدوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔

اس ضمن میں انہوں نے شکایات نمٹانے کا ایسا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کہا ہے جس سے بچوں کے مفادات کو تحفط ملے۔ علاوہ ازیں، جرم کی تحقیقات کا ایسا طریقہ کار بھی ہونا چاہیے جس کے تحت متاثرین کی شکایات پر موثر قانونی کارروائی ہو سکے۔ 

طلاق اور بچوں کی حوالگی کے مقدمات سمیت ایسے معاملات میں یہ کوششیں لازمی اہمیت رکھتی ہیں اور انہیں نفاذ قانون کے اداروں اور خدمات فراہم کرنے والے دیگر محکموں کے تعاون سے انجام دیا جانا چاہیے۔ ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ایسی تمام کارروائیوں اور فیصلوں میں متعلقہ بچوں کے مفادات کو اولیت دی جانا ضروری ہے۔ 

اقوام متحدہ کے ماہرین

فرانس کی حکومت سے یہ مطالبات کرنے والوں میں بچوں کے خلاف جنسی بدسلوکی پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ماما فاطمہ سنگھاتا، خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر خصوصی اطلاع کار ریم السالم اور خواتین و لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے ارکان بھی شامل ہیں۔

ان ماہرین یا اطلاع کاروں کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل تعینات کرتی ہے۔ یہ کسی حکومت یا ادارے کے پابند نہیں ہوتے اور انفرادی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔ یہ ماہرین نہ تو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے کام کا کوئی معاوضہ وصول کرتے ہیں۔