انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انسانی حقوق کونسل کا بچوں پر آن لائن بدسلوکی کے اثرات کا جائزہ

یوگنڈا کی سانتا روز میری بتا رہی ہیں کہ انہیں کیسے آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔
UN News
یوگنڈا کی سانتا روز میری بتا رہی ہیں کہ انہیں کیسے آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔

انسانی حقوق کونسل کا بچوں پر آن لائن بدسلوکی کے اثرات کا جائزہ

انسانی حقوق

بچوں کے ساتھ آن لائن بدسلوکی کا نتیجہ اندیشے اور جذباتی پریشانی کی صورت میں نکلتا ہے اور ایسے واقعات کے متاثرین خودکشی بھی کر لیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ اس مسئلے کی بہتر روک تھام کے لیے ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے حکمت عملی کی تیاری ضروری ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق دنیا بھر میں 13کروڑ طالب علم بدسلوکی کا سامنا کرتے ہیں جسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے اور بھی بڑھا دیا ہے۔ یونیسف کا اندازہ ہے کہ 13 سے 15 سال عمر کے ایک تہائی بچوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔

خودکشی کا خدشہ

یوگنڈا سے تعلق رکھنے والی پندرہ سالہ سانتا روز میری نے کونسل کو اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا۔ روزمیری بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ جب کسی کی نجی معلومات یا بے تکلفانہ ماحول میں لی گئی تصاویر آن لائن شیئر کر دی جاتی ہیں تو وہ فرد اپنے اردگرد لوگوں یا اپنے والدین کا سامنا تک نہیں کر سکتا۔ 

انہوں ںے خبردار کیا کہ ایسی صورت حال میں بچے جب یہ محسوس کریں کہ اپنے لوگوں کے لیے ان کی اہمیت نہیں رہی تو وہ اپنی جان بھی لے سکتے ہیں۔ 

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی نائب سربراہ نادا النشیف نے بتایا کہ خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کمیٹی (سی ای ڈی اے ڈبلیو) کے مطابق آن لائن بدسلوکی سے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں دو گنا زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ 

دور رس اثرات 

نادا النشیف نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تحقیق کا حوالہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدسلوکی کا شکار ہونے والے بچوں کے سکول چھوڑنے اور امتحانات میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے، بے خوابی اور ذہنی امراض کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ 

بعض جائزوں سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایسے واقعات کے اثرات بالغ زندگی میں بھی رہتے ہیں جن میں ذہنی دباؤ اور بیروزگاری نمایاں ہیں۔ 

نادا النشیف نے کونسل کو بتایا کہ آن لائن بدسلوکی کا پیچیدہ موضوع انسانی حقوق، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور پالیسی سے متعلق امور میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ 

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کلی طریقہ کار سے کام لینا اور اس کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بچوں کی بات لازمی اہمیت کی حامل ہو گی۔ 

انہوں نے آن لائن دنیا میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے مرکزی کردار اور طاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صارفین کو اپنی معلومات اور نجی مواد خفیہ رکھنے کے ذرائع مہیا کریں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کی مطابقت سے آن لائن مواد کی نگرانی سے متعلق رہنما ہدایات پر عمل کریں۔

یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں 13کروڑ طالب علم بدسلوکی کا سامنا کرتے ہیں جسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے اور بھی بڑھا دیا ہے۔
Unsplash/James Sutton

فیس بُک اور انسٹا گرام پر قابل اعتراض مواد

ٹیکنالوجی کی کمپنی میٹا میں صارفین کے تحفظ کے شعبے کی ڈائریکٹر دیپالی لائبرہان نے بھی بات چیت میں شرکت کی اور اس مسئلے کی شدت کے بارے میں بتایا۔ 

انہوں نے کہا کہ 2023 کی تیسری سہ ماہی میں ہی میٹا کے پلیٹ فارم فیس بُک اور انسٹاگرام پر ایسے مواد پر مشتمل ڈیڑھ کروڑ چیزوں کی نشاندہی کی گئی جو بدسلوکی اور ہراساں کیے جانے کی زمرے میں آتی ہیں۔ ان میں بیشتر کو میٹا نے رپورٹ ہونے سے پہلے ہی اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا۔ 

انہوں نے آن لائن مواد کی نگرانی سے متعلق کمپنی کی پالیسیوں اور ایسے طریقوں کو واضح کیا جن کے ذریعے میٹا اپنے پلیٹ فارم پر ان پالیسیوں کو نافذ کر رہی ہے۔ انہوں ںے اپنے اقدامات کی بابت آگاہی کے لیے ماہرین کے ساتھ شراکت اور صارفین کو بدسلوکی سے بچنے کے ذرائع کی فراہمی کے بارے میں بھی بتایا۔

اجتماعی ذمہ داری

سیشن کے اختتام پر بچوں کےحقوق سے متعلق کمیٹی کے رکن فلپ جیف نے کہا کہ اپنے بچوں کو تحفظ دینا سبھی کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ 

"ہمیں بچوں کو ان کے حقوق کے بارے میں باخبر بنانے کے علاوہ ممالک اور معاشرے کے دیگر حصوں کو ان کے تحفظ سےمتعلق ذمہ داریوں سے متعلق مزید آگاہی دینا ہو گی۔"