انسانی کہانیاں عالمی تناظر

حقوق کونسل میں پاکستان کی درخواست پر قرآن کی بیحرمتی پر بحث

افغانستان کی ایک مسجد میں لوگ نماز ادا کر رہے ہیں۔
UNAMA/Barat Ali Batoor
افغانستان کی ایک مسجد میں لوگ نماز ادا کر رہے ہیں۔

حقوق کونسل میں پاکستان کی درخواست پر قرآن کی بیحرمتی پر بحث

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے سویڈن کے دارالحکومت میں قرآن کے نسخے کو جلائے جانے کے حالیہ واقعے پر جنیوا میں منعقدہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مذہبی رواداری کے احترام پر زور دیا ہے۔

ہائی کمشنر وولکر تُرک نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن دنیا بھر کے ایک بلین سے زیادہ مسلمانوں کے عقیدے کی بنیاد ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے قرآن کے نسخے کو جلایا وہ ممکنہ طور پر توہین کا اظہار کر رہے تھے اور نفرت کو بھڑکا رہے تھے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے افعال کا مقصد لوگوں کے مابین نفاق پیدا کرنا اور اس طرح اختلافات کو ہوا دے کر نفرت میں تبدیل کرنا ہے۔ 

نکتہ نظر اور عقیدوں کے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے مکالمے کی کلیدی اہمیت ہے۔ انہوں نے ہر اکثریتی اور اقلیتی مذہب کے ماننے والے لوگوں کے خلاف اور ان کی جانب سے نفرت پر مبنی اظہار کی مذمت کی اور تمام معاشروں کے لیے تنوع کے فوائد پر روشنی ڈالی۔ 

ہائی کمشنر نے انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ کسی عقیدے پر یقین رکھنے یا سرے سے کسی بھی عقیدے پر یقین نہ رکھنے کی انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے میں بنیادی اہمیت ہے۔ 

کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ توہین اور عدم رواداری کے خلاف واضح آواز بلند کرنے میں نمایاں سیاست دانوں اور اعلیٰ سطحی مذہبی شخصیات نے خاص طور پر اہم کردار ادا کرنا ہے۔ 

انہیں یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ تشدد کو حقیقی یا مفروضہ پیشگی اشتعال انگیزی کے ذریعے قابل جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ 

آزادی اظہار کی حدود 

ہائی کمشنر نے زور دیا کہ تقریر یا اظہار کی آزادی کو کسی بھی حد تک محدود کرنے کے اقدام سے بنیادی اصول کے معاملے کی حیثیت سے مخصوص حالات میں ہی کام لینا چاہیے۔ خاص طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ آمرانہ حکومتیں تقریر کی آزادی کو محدود کرنے کے قوانین کو عموماً غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ 

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات اظہار کی آزادی سے تشدد اور امتیازی اقدام کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ 

تشدد، دہشت اور بڑے پیمانے پر مظالم کے بہت سے اقدامات کا مقصد لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد کی بنا پر نشانہ بنانا ہوتا ہے اور انہیں عبادت گاہوں میں بھی نہیں بخشا جاتا۔ 

اگرچہ بین الاقوامی قانون اس مسئلے پر بالکل واضح ہے تاہم قومی سطح پر عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے ہر واقعے کا تعین کرتے وقت بین الاقوامی انسانی قانون کے مہیا کردہ تحفظ کو مدنظر رکھیں۔ 

نفرت کے خلاف قانون کی طاقت 

وولکر تُرک نے اجلاس میں شریک مندوبین کو بتایا کہ ان کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہر ملک میں نفرت کا ایسا پرچار ممنوع ہونا چاہیے جس سے تشدد، تفریق اور مخالفت کی ترغیب ملتی ہو۔ 

انہوں نے حجاب اوڑھنے والی مسلمان خواتین سے بدسلوکی، جسمانی معذور افراد کے ساتھ طعن و تشنیع پر مبنی طرزعمل، ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کو بدنام کیے جانے یا مہاجرین اور اقلیتوں کے خلاف جھوٹے دعووں جیسے اقدامات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ نفرت پر مبنی ایسا تمام اظہار ایک سا ہوتا ہے جو اس تصور سے جنم لیتا ہے کہ بعض لوگ دوسروں سے کم حق دار ہیں۔ 

انہوں نے متنبہ کیا کہ نفرت پر مبنی اظہار کی لہر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل رہی ہے جس سے نزاع اور تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 

انہوں نے نفرت کے بڑھتے ہوئے اظہار پر مکالمے، تعلیم، بہتر آگاہی اور بین المذاہب یا معاشرتی سطح پر باہمی روابط کے ذریعے قابو پانے کے لیے کہا۔ 

انہوں نے نفرت کے اظہار کے خلاف اقوام محدہ کی حکمت عملی اور عملی اقدامات کے منصوبے کو حکومتوں کے لیے اس مسئلے سے نمٹنے میں ایک اہم امدادی ذریعہ قرار دیا۔ 

وولکر تُرک نے ممالک پر زور دیا کہ وہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں۔