انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایشیا و الکاہل موسمیاتی شدت سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، یو این رپورٹ

شدید موسمی حالات جیسا کہ خشک سالی کسانوں کے لیے معاشی نقصانات کا سبب بن رہے ہیں۔
UNDP Thailand
شدید موسمی حالات جیسا کہ خشک سالی کسانوں کے لیے معاشی نقصانات کا سبب بن رہے ہیں۔

ایشیا و الکاہل موسمیاتی شدت سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں، یو این رپورٹ

موسم اور ماحول

ایشیا اور الکاہل کے لئے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ای ایس سی اے پی) نے کہا ہے کہ دونوں خطوں کے بیشتر ممالک میں شدید موسمی حالات اور قدرتی آفات کا سامنا کرنے کی تیاری ناکافی ہے جبکہ ایسے واقعات کی شدت اور رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ای ایس سی اے پی کی ''نیٹ زیرو کی جانب دوڑ: ایشیا اور الکاہل میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت'' کے عنوان ایک نئی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس خطے کے ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے اور اس تبدیلی کے اثرات کو محدود رکھنے کی کوششوں میں مدد دینے اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف آگاہی پر مبنی اقدامات کے لئے درکار معلومات کے حصول کے لئے خاطرخواہ مالی ذرائع کا فقدان ہے۔

Tweet URL

گزشتہ 60 برس میں ایشیا اور الکاہل میں درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھا ہے۔ قدرتی آفات سے بری طرح متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے چھ ایسے خطے میں واقع ہیں جہاں نظام ہائے خوراک مسائل کا شکار ہیں، معیشتوں کو نقصان پہنچا ہے اور معاشرے کمزور ہو گئے ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج

رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ یہ خطہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا سامنا کر رہا ہے تاہم یہ تبدیلی لانے میں اس خطے کا بھی اہم کردار ہے اور دنیا بھر میں پیدا ہونے والی والی گرین ہاؤس گیسوں کا نصف یہی خطہ خارج کرتا ہے۔ آبادی میں اضافے اور معیشتوں میں معدنی ایندھن کا کردار برقرار رہنے کے باعث اس خطے سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔

جہاں اس مسئلے سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت واضح ہے وہیں اس حوالے سے حالات بھی مشکل ہیں۔ اقوام متحدہ کی معاون سیکرٹری جنرل اور 'ای ایس سی اے پی' کی ایگزیکٹو سیکرٹری آرمیڈا سالسیا ایلیسجابانا کا کہنا ہے کہ ''ایشیا اور الکاہل کی معیشتوں کو کم کاربن خارج کرنے کی راہ پر ڈالنے، موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مطابقت اور اس کے اثرات کے مقابل مضبوطی پیدا کرنے کو اس خطے میں وبا کے بعد بحالی کے عمل میں مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔''

انہوں نے اعتراف کیا کہ خطے کی حکومتیں پالیسی سے متعلق حالیہ بحران سے جنم لینے والے مشکل حالات میں نیٹ زیرو ہدف کے حصول کی دوڑ میں دوبارہ شامل ہو رہی ہیں۔

پیرس معاہدے سے عدم مطابقت

'ای ایس سی اے پی' کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے متعین قومی کردار کے حوالے سےخطے  ممالک کے مجموعی اقدامات پیرس معاہدے کے تحت درکار عزم سے مطابقت نہیں رکھتے۔

درحقیقت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 2010 کی سطح کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ اس امر کی پیش گوئی ہے کہ دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 45 فیصد کمی کے ہدف سے بہت دور ہے۔ فیصلہ کن اقدام کے بغیر عالمی حدت اس خطے میں غربت اور عدم مساوات کا بنیادی محرک رہے گی جس کے پورے براعظم میں تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور الکاہل میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

'ای ایس سی اے پی' کے جائزے میں تین اہم شعبوں میں درکار تبدیلیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں توانائی، کاربن میں کمی و انصرام اور بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے شامل ہیں۔ اس میں ان بڑی تبدیلیوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی اور پائیدار ترقی کے لئے مستقبل میں کاربن کے اخراج کی سطح نیٹ زیرو پر لانے کی راہ میں درپیش مسائل اور اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو جانچنے کے لئے ٹھوس تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

'ای ایس سی اے پی' کا 79واں کمیشن اجلاس 15 تا 19 مئی بنکاک میں ہو گا جس میں سربراہان مملکت و حکومت، وزرا، اعلیٰ سطحی حکام، نوجوان اور دیگر متعلقہ فریقین پالیسی کے حوالے سے دلیرانہ امکانات، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے موثر طریقوں اور نیٹ زیرو کے حصول کی راہ پر پُرعزم اقدامات کو ترقی دینے کے لئے تبادلہء خیال کریں گے۔