انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ترکیہ میں زلزلے کے بعد 15 لاکھ افراد بے گھر: یو این ماہرین

ترکیہ کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں ایک تباہ حال عمارت
© UNOCHA/Matteo Minasi
ترکیہ کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں ایک تباہ حال عمارت

ترکیہ میں زلزلے کے بعد 15 لاکھ افراد بے گھر: یو این ماہرین

انسانی امداد

ترکیہ میں 6 فروری کو آنے والے زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 41,000 سے تجاوز کر گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک کے جنوب میں 1.5 ملین لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جہاں کم از کم 500,000 نئے گھر تعمیر کرنا ہوں گے۔

ترکیہ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی نمائندہ لوسیا ونٹن نے کہا ہے کہ ''اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ترکیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ اور شاید ملک میں اب تک کی سب سے بڑی قدرتی آفت تھی۔''

سوموار کو ترکیہ۔شام سرحد کے قریب 6.4 اور 5.8 شدت کے دو مزید زلزلوں میں مزید چھ افراد ہلاک اور 294 زخمی ہو گئے جبکہ ہاتائے کے گردونواح اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے میں چند مزید عمارتیں منہدم ہو گئیں۔

شام کو امداد کی فراہمی جاری

شمال مغربی شام میں بین الاقوامی امدادی اقدامات جاری ہیں جہاں نو ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں اور کم از کم 6,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 9 فروری سے اب تک امدادی سامان لے کر جانے والے 227 ٹرک ترکیہ سے شام پہنچے ہیں جن میں 195 نے باب الہوا کا سرحدی راستہ اختیار کیا، 22 باب السلام کے راستے شام گئے اور 10 نے الراعی کی سرحدی گزرگاہ استعمال کی۔

یورپ میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے زلزلے کے واقعات میں امدادی امور کی منتظم کے طور پر خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر کیتھرائن سمال وڈ نے جنوبی ترکیہ کے شہر غازی اینتیپ سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''یہ آفت آنے کے بعد ادارے نے قریباً 100 ٹن امدادی سامان ترکیہ سے سرحد پار پہنچایا ہے۔ یہ امداد اس سازوسامان کے علاوہ ہے جو ہم نے زلزلے سے پہلے ہی شام کے لیے تیار کر رکھی تھی۔''

اقوام متحدہ کے ادارے ترکیہ کے راستے شام میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں۔
© UNOCHA/Madevi Sun Suon
اقوام متحدہ کے ادارے ترکیہ کے راستے شام میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں۔

موبائل طبی سہولیات

اس امداد میں ضروری ادویات، ایک مرتبہ استعمال ہونے والے طبی آلات، بیہوشی کی ادویات، سرجری کا سامان اور زلزلے کے باعث آنے والے مخصوص زخموں کے آپریشن یا علاج کے ضرورت مند مزید 40,000 سے 49,000 تک لوگوں کے لیے دیگر طبی سازوسامان شامل ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار نے مزید بتایا کہ 55 طبی مراکز کو نقصان پہنچا ہے اور متعدد ''مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں''، تاہم شمال مغربی شام میں زلزلے سے بری طرح متاثر ہونے والے ایک علاقے جندیرس کے نواحی علاقوں میں چھ متحرک کلینک دوبارہ بھیج دیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر سمال وڈ نے واضح کیا کہ ''یہ متحرک کلینک لوگوں کو براہ راست مدد اور طبی خدمات پہنچاتے ہیں۔''

مغربی ایشیا کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ای ایس سی ڈبلیو اے) نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے میں بچ جانے والے شہری پینے کے پانی، بجلی یا حرارت کے لیے درکار ایندھن کے بغیر شدید سردی کا سامنا کر رہے ہیں اور پناہ کے حصول کی کوشش میں انہیں شکستہ عمارتیں گرنے سے خطرات لاحق ہیں۔

متحارب علاقوں میں امدادی پیش رفت

دمشق سے ادلب میں امداد کی ترسیل کے بارے میں بھی ممکنہ طور پر مثبت خبریں سامنے آئی ہیں۔ ادلب میں بڑی حد تک حزب اختلاف کی مسلح فورسز کا کنٹرول ہے جہاں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے جاری لڑائی کے بعد 4.1 ملین افراد کا تقریباً مکمل طور پر دارومدار انسانی امداد پر ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) کے ترجمان ٹوماسو ڈیلا لونگا نے تصدیق کی ہے کہ ''اتوار، 19 فروری اور سوموار، 20 فروری کو انسانی امداد لے جانے والے شامی عرب ریڈ کریسنٹ کے تین قافلوں نے شمالی حلب کے علاقے شیخ مقصود کو عبور کیا جہاں حکومت کی عملداری نہیں ہے۔ اسی لیے ہم یہاں متحارب فریقین کے زیرانتظام علاقوں کے آر پار امداد کی فراہمی کی بات کر رہے ہیں۔''

ملبے کا ڈھیر

یو این ڈی پی کی لوسیا ونٹن نے آنے والے وقت میں بہت بڑے پیمانے پر تعمیر نو کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں اندازاً  116 سے 210 ملین ٹن تک ملبہ صاف کرنا پڑے گا۔

انہوں ںے کہا کہ ''موازنے کے لیے دیکھیں تو ترکیہ میں اس سے پہلے بڑا زلزلہ 1999 میں آیا تھا اور اس میں بھی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ تاہم اس وقت تباہی کا حجم موجودہ صورتحال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھا اور اس وقت بھی 13 ملین ٹن ملبہ صاف کیا گیا تھا۔''

ماضی میں نیپال، ہیٹی، لبنان اور یوکرین میں زلزلوں اور دھماکوں کے بعد یو این ڈی پی نے یہ یقینی بنانے کے لیے متعدد منصوبوں میں شراکت کی تھی کہ ملبے کو اس انداز میں صاف کیا جائے جس سے ماحول پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ لوسیا ونٹن نے واضح کیا کہ ''اس ملبے کے بیشتر حصے کو تعمیراتی مقاصد کے لیے دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے اور اسے مختصر مدتی طور پر آمدنی کے حصول کے ذریعے کے طور پر بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔''