انسانی کہانیاں عالمی تناظر

منسک معاہدے کے آٹھ سال: یوکرین میں ’قابل عمل‘ امن کی ضرروت پر زور

روسی حملے کے دوران اوڈیسا کی گلیاں
Odessa Mayor's Office
روسی حملے کے دوران اوڈیسا کی گلیاں

منسک معاہدے کے آٹھ سال: یوکرین میں ’قابل عمل‘ امن کی ضرروت پر زور

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے حکام نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ اگرچہ یوکرین کی جنگ کے پرُ امن حل کی اشد ضرورت ہے تاہم اس حوالے سے کوئی بھی معاہدہ واضح اور قابل عمل ہونا چاہیے جس سے اس تنازعے کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔

یورپ، وسطی ایشیا اور براعظم ہائے امریکہ کے لیے اقوام متحدہ کے معاون سیکرٹری جنرل میروسلاو جینکا نے روس کی درخواست پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے مِنسک معاہدوں کے انجام سے سیکھے گئے اسباق کا حوالہ دیا اور ارکان سے کہا کہ ''امن محض معاہدے پر دستخط کرنے کا نام نہیں ہے۔''

Tweet URL

یہ اجلاس ایسے موقع پر ہوا ہے جب کریملن کی جانب سے یوکرین کے خلاف بڑے پیمانے پر کیے جانے ولے حملے کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے حالات کی حالیہ پیچیدگی اور یورپ میں سلامتی کے ڈھانچے کے مستقبل اور بین الاقوامی نظام پر اس جنگ کے اثرات کو مدنظر رکھا جائے تو کاغذ پر لکھے الفاظ کو عملہ جامہ پہنانا خاص طور پر اہم ہے۔''

نام کی جنگ بندی

مِنسک معاہدوں کو مِنسک دوم معاہدہ بھی کہا جاتا ہے جس پر فروری 2015 میں یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای)، روس، یوکرین،  خود ساختہ عوامی جمہوریہ ڈونیسک اور عوامی جمہوریہ لوہانسک نے دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے میں مشرقی یوکرین میں حکومتی فوجوں اور باغیوں کے مابین جنگ بندی میں مدد دینے کے لیے سیاسی و عسکری اقدامات کی بات کی گئی تھی۔

دیگر شرائط کے علاوہ مِنسک معاہدوں کے فریقین نے ڈونیسک اور لوہانسک کے مخصوص علاقوں میں فوری اور جامع جنگ بندی کا عزم کیا جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ کبھی موثر نہیں ہوئی۔

سلامتی کونسل مِنسک معاہدوں پر دستخط کو ایک سال مکمل ہونے پر روایتی طور پر اپنا اجلاس منعقد کرتی چلی آئی ہے۔

اقوام متحدہ کی عدم شمولیت

میروسلاو جینکا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ آٹھ برس کے دوران یوکرین میں امن عمل سے متعلق کسی بھی طریقہ کار میں کوئی رسمی کردار ادا نہیں کیا۔

اسے مِنسک میں ہونے والے بات چیت کے متعدد ادوار میں شرکت کے لیے کبھی مدعو نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ 2014 اور 2015 میں ہونے والے معاہدوں میں شریک تھا۔ او ایس سی ای کے سہ فریقی رابطہ گروپ کے زیرقیادت ان معاہدوں پر عملدرآمد کی کوششوں میں بھی اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔

تاہم اقوام متحدہ نے تواتر سے ان معاہدوں پر عملدرآمد کی حمایت کی ہے جس میں 17 فروری 2015 کو سلامتی کونسل کی قرارداد 2202 (2015) کی متفقہ منظوری بھی شامل ہے۔

جب ادارے سے درخواست کی گئی اور جہاں موزوں ہوا اس نے ان معاہدوں کے حوالے سے اپنے تعاون کی پیشکش کی اور مشرقی یوکرین میں او ایس سی ای کے خصوصی نگران مشن کے لیے ماہرین مہیا کیے۔ یہ مشن اب غیرفعال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں میں اس کی علاقائی سالمیت کی سختی سے اصولی حمایت کرتا چلا آیا ہے۔

 

'شدید دکھ اور مایوسی'

2015 سے 2019 تک مِنسک معاہدوں کے لیے او ایس سی ای کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے مارٹن ساجک نے بھی کونسل کو بریفنگ دی۔

مِنسک دوم معاہدے سے ہٹ کر انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کے عرصہ میں دیگر سفارتی اقدامات کا جائزہ پیش کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ان معاہدوں کی متعدد شرائط اس سیاسی عزم سے عاری تھیں جس کی ان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضرورت تھی۔

محاذ جنگ کے دونوں جانب عام شہریوں کے تحفظ اور ان کی ضروریات پر او ایس سی ای کی توجہ کو واضح کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ حالیہ جنگ شروع ہونے سے پہلے لڑائی سے متاثرہ عام لوگوں کی تعداد میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2019 تک دیگر کامیابیوں کے علاوہ 2014 کے بعد پہلی مرتبہ پانی کے انتظام اور سرحدی راستوں پر حالات میں بھی بہتری آئی اور لڑائی میں کسی بچے کی ہلاکت کا واقعہ پیش نہ آیا۔

ساجک نے کڑی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ان فوائد کے پس منظر میں 2022 کے بعد یوکرین میں تیزی سے بڑھتے تشدد پر ''شدید صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا۔''