انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ترکیہ زلزلہ: دہشت کے 60 سیکنڈ کا آنکھوں دیکھا حال

غازی اینتیپ زلزلے کے ایک روز بعد، ترکیہ میں چھ فروری کی صبح آنے والے زلزلے میں آٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
IOM/Olga Borzenkova
غازی اینتیپ زلزلے کے ایک روز بعد، ترکیہ میں چھ فروری کی صبح آنے والے زلزلے میں آٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ترکیہ زلزلہ: دہشت کے 60 سیکنڈ کا آنکھوں دیکھا حال

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی ترجمان اولگا بورزینکووا نے ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلوں کے بعد اپنے تجربات اور اِس وقت جاری ہنگامی امدادی اقدامات کی تفصیل بیان کی ہے۔

سوموار کو جب زلزلے آئے تو وہ ترکیہ کے شہر غازی اینتیپ میں موجود تھیں جو ہزاروں افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والی اس قدرتی آفت سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ''جنوب مشرقی ترکیہ میں ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح میں بھی اس وقت گہری نیند میں تھی جب زمین ہلنا شروع ہو گئی۔ اس خطے میں اب تک کے اس سب سے بڑے زلزلے کا احوال تو ایک طرف، میں واقعتاً نہیں جانتی کہ کسی ایسے شخص کو یہ صورتحال کیسے سمجھاؤں جسے کبھی کسی زلزلے کا تجربہ نہیں ہوا۔

یہ پوری طرح ماورائے حقیقت تجربہ تھا۔ فرش اور دیواریں ہل رہی تھیں، خم کھا رہی تھیں اور ہم بھاگتے ہوئے عمارت کی تین منزلوں سے نیچے اتر کر سڑک پر آ گئے جبکہ ہمارے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ ہمیں عمارتوں سے دور، بہت دور جانا ہے۔

یہ ساٹھ سیکنڈ میری زندگی کے دہشت ناک ترین لمحات تھے۔ جب ہم قدرے پرسکون ہوئے اور ہمیں احساس ہوا کہ ہم زلزلے میں ہلاک ہونے سے بچ گئے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ بھی ہوا کہ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ ہمارے جسم ٹھنڈے تھے اور ٹانگیں جیلی جیسی محسوس ہو رہی تھیں گویا وہ ہمارے جسم کا حصہ نہ ہوں۔ ہمارے ارد گرد ہر شخص دوسروں کو پکار رہا تھا اور چیخ چلا رہا تھا۔

شام کے علاقے سمادا میں زلزلے سے ممکنہ طور پر بچ جانے والوں کی تلاش جاری ہے۔
© UNOCHA/Ali Haj Suleiman
شام کے علاقے سمادا میں زلزلے سے ممکنہ طور پر بچ جانے والوں کی تلاش جاری ہے۔

'ناقابل بیان دکھ'

دوسرے زلزلے سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات سے کچھ ہی دیر کے بعد ہمیں ایک سکول میں پناہ مل گئی۔ دیگر ہزاروں لوگوں کے ساتھ ہم بیٹھ اور لیٹ گئے یا باسکٹ بال کے کورٹ پر کھڑے ہو گئے اور اپنے خاندانوں کو بتانے لگے کہ ہم محفوظ ہیں۔

اس کے بعد میں نے یہ جائزہ لینا شروع کیا کہ میں کیسے مدد کر سکتی ہوں، میں انہیں کیسے بتا سکتی ہوں کہ کیا ہو رہا ہے، ان شاندار لوگوں کو کیسے خراج تحسین پیش کر سکتی ہوں جو میری اور مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کی مدد کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے تھے۔

سوموار کی رات ہم نے ایک سرکاری پناہ گاہ میں گزاری۔ اس دوران ہم نے زلزلے کے چند چھوٹے جھٹکے بھی محسوس کیے لیکن یہ پریشان کن نہیں تھے اور ہمیں گرم مشروبات اور کچھ خوراک کے علاوہ سونے کی جگہ بھی مل گئی۔ اب میں دفتر میں ہوں اور ہر بات سے آگاہی حاصل کر رہی ہوں جس میں یہ دل شکن خبر بھی شامل ہے کہ ہم نے اپنے ایک ساتھی کو کھو دیا ہے۔ ہمارے بعض ساتھی زخمی ہیں، بعض لوگوں کے خاندان کے ارکان ہلاک ہو گئے ہیں اور بعض کے گھر تباہ ہوئے ہیں۔ ہاتائے میں میری ٹیم کے ارکان جیسے بعض لوگ معجزانہ طور پر بچنے میں کامیاب رہے۔

یہ ناقابل بیان دکھ ہے۔ ہم سو رہے تھے اور اگلے ہی لمحے کرہ ارض پر آنے والی ایک بہت بڑی تباہی کا حصہ بن گئے۔

میرا دل مایوسی، غم اور خوف سے رو رہا ہے۔ تاہم میں اپنے ساتھیوں، اپنے ہمسایوں اور اپنے دوستوں کو دیکھتی ہوں جو اس آفت کے نتیجے میں مجھ سے کہیں زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور انہیں دیکھ کر مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی ترجمان اولگا بورزینکووا۔
IOM
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی ترجمان اولگا بورزینکووا۔

بڑے پیمانے پر پناہ گاہوں کی ضرورت

ترکیہ زلزلوں کی زد میں رہتا ہے جس نے اس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی معیار کا طریقہ کار وضع کیا ہے۔ ہم 30  سال سے زیادہ عرصہ سے ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور وہ ہمارے غیرمعمولی شراکت دار ہیں۔ تاہم وہ بھی حالیہ تباہی سے باآسانی نہیں نمٹ سکیں گے۔ یہ ان پر دہری ضرب ہے۔ شام کی جنگ سے جان بچا کر آنے والے دس لاکھ سے زیادہ لوگ اسی علاقے میں عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں جو زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ہم حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھے کہ ہم بہترین انداز میں کیسے مدد دے سکتے ہیں۔ اس طرح کے تمام حالات میں سب سے پہلے تلاش اور بچاؤ کا کام کرنا ہوتا ہے اور میں جانتی ہوں کہ اس کام میں مدد دینے کے لیے دنیا بھر سے ٹیمیں آ رہی ہیں۔ یقیناً متاثرہ علاقوں میں ہزاروں پناہ گاہوں کی ضرورت ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو شدید سردی میں بے گھر ہو کر رہنا پڑے۔ انہیں مختصر مدتی طور پر کہیں نہ کہیں سونے، گرم کپڑوں، پانی، خوراک اور حرارت کی ضرورت ہو گی۔ یہ لوگ صدمے کا شکار اور زخمی بھی ہوں گے اور ان کے ذہنوں پر اس المیے کے شدید اثرات ہوں گے۔ 

لوگ تباہ ہو چکے ہوں گے، سکولوں اور ہسپتالوں کو نقصان پہنچا ہو گا، کام کی جگہیں ختم ہو گئی ہوں گی۔ امدادی انتظام مشکل ہو چکا ہو گا، سڑکوں اور ہوائی اڈوں کو فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہو گی۔ بہت بڑے پیمانے پر بچاؤ، حفاظتی اقدامات اور بحالی کی کارروائی کی ضرورت ہو گی اور حکومت جس طرح سے بھی کہے اور جب تک ضرورت ہو ہم مدد کے لیے تیار ہیں۔