انسانی کہانیاں عالمی تناظر

گوتیرش نے موسمیاتی بحران پر ’سنجیدہ‘ کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا

بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے اب تک 14 ملین ٹن سے زیادہ اناج اور دیگر خوراک کی ترسیل ہو چکی ہے.
UN Photo/Mark Garten
بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے اب تک 14 ملین ٹن سے زیادہ اناج اور دیگر خوراک کی ترسیل ہو چکی ہے.

گوتیرش نے موسمیاتی بحران پر ’سنجیدہ‘ کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دنیا کے تمام خطوں کو بڑی تعداد میں درپیش ہنگامی مسائل کے عملی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے 2023 کو ''امن اور عمل کا سال'' بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

سال کی آخری پریس کانفرنس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ ''مسائل کا حل نکالنے، ان کے خلاف لڑنے اور عملی اقدامات کرنے کے لیے ہم پر لوگوں کا قرض ہے۔  ہم بعض اوقات احتیاط سے لیکن ہمیشہ عزم کے ساتھ مسائل کا مقابلہ کریں گے۔''

Tweet URL

عملی اقدامات کے لیے اپنی عمومی پکار کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ سال ستمبر میں موسمیاتی عزم سے متعلق کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ انہوں نے حکومتوں، کاروباروں، شہروں، علاقوں، سول سوسائٹی اور مالیاتی شعبے میں ہر رہنما سے کہا کہ وہ اس کام کے لیے آگے بڑھیں۔

واضح تبدیلی لانے کا وقت

انہوں ںے واضح کیا کہ ہمیں سفارتی احتیاط کے ساتھ واضح اور قابل اعتماد موسمیاتی اقدامات سے کم کچھ بھی درکار نہیں اور اس کانفرنس میں ہر ملک کو ''ناقابل بحث معتبر، سنجیدہ اور نئے موسمیاتی اقدامات اور فطرت کی بنیاد پر وضع کردہ طریقہ ہائے کار پر عمل کرنے کا وعدہ کرنا ہو گا جو ہمیں آگے بڑھنے اور موسمیاتی بحران سے نمٹںے کے لیے ہنگامی اقدامات میں مدد دیں۔

انہوں ںے کہا کہ یہ ''ایک سنجیدہ کانفرنس'' ہو گی۔ اس میں کسی کو استثنیٰ نہیں ملے گا اور کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے۔ اس میں وعدوں سے پھرنے، نمائشی اقدامات کرنے، اپنی کوتاہی کا الزام دوسروں پر دھرنے اور گزشتہ برسوں کے اعلانات پر آئندہ برس عملدرآمد کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ یہ کانفرنس جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے ساتھ منعقد ہو گی جس کا مقصد پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لیے مقررہ عرصہ کی نصف مدت مکمل ہونے پر عملی اقدامات کی رفتار بڑھانا ہے۔

امید کی وجوہات

سیکرٹری ںے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں سال کی آخری پریس کانفرنس کا آغاز 2022 میں اقوام متحدہ کے کام پر بات کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یوکرین کی جنگ اور اس سے منسلک رہن سہن کے اخراجات کے بحران اور اس کے نتیجے میں غریب ترین ممالک کے 'قرضوں کے جال میں پھنسنے سمیت ''مایوسی کی بہت سی وجوہات'' ہو سکتی ہیں لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا۔

انہوں نے کہا کہ ''یہ خاموشی سے بیٹھ رہنے کا وقت نہیں ہے بلکہ یہ ارادے، عزم اور امید کا وقت ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ رکاوٹوں اور طویل مشکلات کے باوجود ہم مایوسی کو ختم کرنے اور مسائل کا حقیقی حل ڈھونڈنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس مسائل کے ہر اعتبار سے مکمل حل نہیں ہیں لیکن ہمارے پاس ان کے عملی حل ضرور موجود ہیں جو لوگوں کی زندگیوں میں بامعنی تبدیلی لا رہے ہیں۔

یہ ایسے حل ہیں جن کی بدولت ہم بہتر اور مزید پُرامن مستقبل کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔''

 

حیاتیاتی تنوع کا معاہدہ

انہوں ںے چند ہی گھنٹے پہلے حیاتیاتی تنوع پر قوام متحدہ کی کانفرنس کاپ 15 میں طے پانے والے معاہدے پر روشنی ڈالی جس کا مقصد دنیا بھر میں ماحولی نظام کی تباہی کو روکنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''بالاآخر ہم فطرت کے ساتھ امن معاہدے سے آغاز کر رہے ہیں۔'' انہوں نے تمام  ممالک پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کریں۔

انہوں ںے مزید کہا کہ دنیا کے بعض جنگ زدہ علاقوں میں تنازعات کے خاتمے کے لیے ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے۔ سیکرٹری جنرل نے شمالی ایتھوپیا میں جنگ بندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ''امید کی وجہ'' اور ''سفارت کاری کے نئے جنم'' کا ضمنی نتیجہ قرار دیا۔

اس حوالے سے جمہوریہ کانگو کے مشرقی علاقے میں بھی پیش رفت دیکھنے کو ملی جہاں مسلح گروہ حکومتی فوج کے خلاف لڑائی میں تیزی لے آئے تھے جس کے بعد وہاں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی عمل میں آئی۔ اسی طرح یمن میں جنگ بندی سے بھی لوگوں کو حقیقی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ یوکرین میں جاری ظالمانہ جنگ میں بھی ''ہم نے لوگوں کو مدد دینے اور بے مثال درجے کے عالمگیر غذائی عدم تحفظ پر قابو پانے کے لیے پرعزم اور محتاط سفارت کاری کی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کے اقدام کا حوالہ دیا جس کی بدولت یوکرین سے خوراک اور کھادوں کی برآمدات میں سہولت ملی۔ انہوں نے روس سے خوراک اور کھادوں کی بلاروک و ٹوک برآمدات ممکن بنانے کے لیے باہمی مفاہمت کی یادداشت کا تذکرہ بھی کیا۔

بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے اب تک 14 ملین ٹن سے زیادہ اناج اور دیگر خوراک کی ترسیل ہو چکی ہے جبکہ اس اقدام کے تحت روس سے گندم کی برآمدات کا حجم تین گنا ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''اس کے باوجود ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ خوراک کی قیمتیں اب بھی بہت بلند ہیں اور کھادوں تک رسائی بہت محدود ہے۔''

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سال کی آخری پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔
UN Photo/Mark Garten
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سال کی آخری پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں کا بے قابو اخراج

مصر میں کاپ 27 کے موقع پر کیے جانے والے وعدوں اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے حالیہ معاہدے کے بوجود یہ واضح ہے کہ مجموعی طور پر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کی جدوجہد ''تاحال درست سمت نہیں پکڑ سکی'' اور عالمی سطح پر ان گیسوں کے اخراج اور اسے روکنے کے اہداف میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ''1.5 ڈگری کے ہدف کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے قومی موسمیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ رہے۔ تاہم اس کے باوجود ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے بلکہ ہم اس مسئلے پر قابو پانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔''

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری ''کرہ ارض کے شمال اور جنوب کے مابین اعتماد بحال کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے'' اور کاپ27 میں نقصان اور تباہی کے مسئلے پر طویل عرصہ سے زیرالتوا معاملے پر معاہدہ اسی کی ایک مثال ہے۔

موسمیاتی یکجہتی کا معاہدہ

آئندہ پانچ برس میں دنیا کے ہر شخص کو قدرتی آفات سے بروقت آگاہ کرنے کے لیے عملی منصوبے کی شروعات 2022 کے دوران لیا جانے والا ایک اور اہم قدم ہے۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ ''آگے بڑھتے ہوئے میں موسمیاتی یکجہتی کے معاہدے پر زور دیتا رہوں گا جس کے تحت گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے سب سے بڑے ممالک کو 1.5 ڈگری کے ہدف کی مطابقت سے اس دہائی میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور ضرورت مند ممالک کی مدد یقینی بنانے کے لیے اضافی کوششیں کرنا ہوں گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ''ایسا نہ کیا گیا تو 1.5 ڈگری کا ہدف بہت جلد غائب ہو جائے گا۔ میں نے اس موجودہ خطرے کا لازمی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے سبھی کو ان کی ذمہ داری یاد دلانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور میں ایسا کرتا رہوں گا۔ ''