انسانی کہانیاں عالمی تناظر
جنوب مشرقی ایشیا کے منظم جرائم پیشہ گروہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا دائرہ کار بڑھا رہے ہیں۔

انٹرویو: ٹیکنالوجی سے جنوب مشرقی ایشیا میں غیر قانونی تجارت کو بڑھاوا

© Unsplash/Markus Spiske
جنوب مشرقی ایشیا کے منظم جرائم پیشہ گروہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا دائرہ کار بڑھا رہے ہیں۔

انٹرویو: ٹیکنالوجی سے جنوب مشرقی ایشیا میں غیر قانونی تجارت کو بڑھاوا

جرائم کی روک تھام اور قانون

جنوب مشرقی ایشیا میں غیرقانونی معیشت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ منظم جرائم میں ملوث گروہوں نے خطے میں ایسے علاقوں کو اپنی کارروائیوں کا مرکز بنا رکھا ہے جہاں قانون کی عملداری کمزور ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے نمائندے جیریمی ڈگلس بتاتے ہیں کہ خطے میں جرائم پیشہ عناصر ٹیکنالوجی کے استعمال میں حکومتوں سے آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات کے کاروبار، انسانی سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور مالی دھوکہ دہی جیسے جرائم کا قلع قمع کرنا مشکل ہدف بن گیا ہے۔

جیریمی ڈگلس جنوب مشرقی ایشیا اور الکاہل خطے کے لیے 'یو این او ڈی سی' کے علاقائی نمائندے ہیں۔ انہوں نے یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے ٹیکنالوجی اس خطے میں بین الاقوامی منظم جرائم کے منظرنامے کو تبدیل کر رہی ہے۔ 

جیریمی ڈگلس: بین الاقوامی منظم جرائم میں ملوث عناصر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اپنی سرگرمیوں کے لیے ٹیکنالوجی سے کام لینا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی میں ترقی اور خاص طور پر کرپٹو کرنسی، آن لائن کھیلوں، انٹرنیٹ پر خریدوفروخت اور اب مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے باعث وہ اپنے غیرقانونی کاروبار کے لیے تیزی سے نئے مواقع تخلیق کر رہے ہیں۔ 

منی لانڈرنگ کے حوالے سے یہ صورتحال اور بھی نمایاں ہے۔ اس جرم میں جوا خانوں کا اہم کردار ہے جنہیں مجرمانہ لین دین کے لیے بینکوں کی طرز پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یو این او ڈی سی کے جیریمی ڈگلس ’گولڈن ٹرائی اینگل‘ کے ایک دور دراز علاقے میں پہاڑی شان قبیلے کے افراد کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے۔
© UNODC Thailand
یو این او ڈی سی کے جیریمی ڈگلس ’گولڈن ٹرائی اینگل‘ کے ایک دور دراز علاقے میں پہاڑی شان قبیلے کے افراد کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے۔

یو این نیوز: منظم جرائم میں ملوث گروہ خاص طور پر کون سی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں؟ 

جیریمی ڈگلس: یہ گروہ آن لائن کاروبار اور انٹرنیٹ پر خریدوفروخت کے لیے کئی طرح کی کرپٹو کرنسی سے کام لے رہے ہیں۔ وہ کالا دھن پیدا کرنے، اسے سفید کرنے اور اشیا کی وصولی اور منتقلی کے لیے عام ویب کے علاوہ ڈارک ویب سے بھی کام لے رہے ہیں۔ یہ عناصر اشیا کی فروخت اور کئی طرح کے کاروبار چلانے کے لیے سوشل میڈیا کی معتدد ایپس بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے کاروبار میں منشیات اور اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں کی خریدوفروخت اور انسانی سمگلنگ بھی شامل ہیں۔ بنیادی طور پر یہ منافع کمانے کا معاملہ ہے اور ٹیکنالوجی انہیں بھاری رقومات کے علاوہ مالی قدر پیدا کرنے اور ان کی تیز رفتار منتقلی میں مدد دیتی ہے۔ 

یو این نیوز: یہ صورتحال کس قدر پریشان کن ہے؟

جیریمی ڈگلس: یہ کئی سطحوں پر پریشان کن معاملہ ہے۔ خطے میں منظم جرائم پیشہ گروہوں کی صلاحیتیں عموماً حکومتوں سے بڑھ کر ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں یہ صورتحال اور بھی نمایاں ہے۔ جرائم پیشہ گروہ اپنی کارروائیوں کو ایسے علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں جہاں وہ قانون کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہر طرح کے بین الاقوامی جرائم میں ٹیکنالوجی کے ذریعے آنے والی جدت اور تیز رفتار تبدیلی کا مقابلہ کرنے کےلیے طویل وقت درکار ہو گا۔ 

یو این نیوز: ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی نے ان غیرقانونی کاروباروں کو کیسے تبدیل کیا ہے؟ 

جیریمی ڈگلس: اس حوالے سے ہر کاروبار کی صورتحال ایک دوسرے سے الگ ہے، تاہم، مثال کے طور پر، ہم نے لوگوں کی فیس بک، ٹیلی گرام اور ڈارک ویب پر سمگلنگ ہوتے دیکھی ہے۔ 

دھوکہ دہی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے والی جگہوں پر یہ صورتحال زیادہ نمایاں ہے۔ ان میں کیسینو، گمنام ہوٹل اور محفوط عمارتوں جیسی جگہیں شامل ہیں جہاں لوگوں کو آن لائن اور مالیاتی دھوکہ دہی جیسے کاموں کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ یوں ہم کئی طرح کے جرائم کو یکجا ہوتا دیکھتے ہیں۔

نئے طریقوں سے کالا دھن سفید کرنے کا کام بھی ہو رہا ہے اور غیرقانونی کاروبار تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر منشیات اور رقم کی سمگلنگ جوا خانوں کے ذریعے ہوتی ہے یا ان میں لگائی جاتی ہے یا پھر اسے دوبارہ منشیات یا اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں کی پیداوار پر خرچ کیا جاتا ہے۔ 

ہم جنوبی ایشیا میں میکانگ کے ذیلی خطے میں غیرقانونی معیشت میں تیزرفتار اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

منشیات کی روک تھام کے لیے تھائی لینڈ کی ایک پولیس چوکی پر گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔
UN News/Daniel Dickinson
منشیات کی روک تھام کے لیے تھائی لینڈ کی ایک پولیس چوکی پر گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔

یو این نیوز: جرائم پیشہ گروہ قانون کی گرفت سے بچ کر اپنی سرگرمیاں کیسے انجام دیتے ہیں؟ 

جیریمی ڈگلس: وہ خطے کے ایسے حصوں سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں جو خودمختار یا نیم خودمختار حیثیت رکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ بڑے شہروں سے دور سرحدی علاقے ہوتے ہیں۔ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں قانون کا اطلاق کمزور ہوتا ہے۔ یا نفاذ قانون کے اداروں میں بدعنوانی عام ہے۔ اسی لیے ان جگہوں تک رسائی حاصل کرنا اور جرائم پیشہ گروہوں کو روکنا آسان نہیں ہوتا۔ ان میں شمالی میانمار جیسے بعض علاقوں پر عملاً مسلح گروہوں کی عملداری ہے۔

یہ خطے کی حکومتوں کے لیے بہت مشکل صورتحال ہے کیونکہ ایسے خطے میں کسی مسئلے سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا جس پر ان کا اختیار نہ چلتا ہو؟

یو این نیوز: ممالک اس خطرے سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟

جیریمی ڈگلس: اس حوالے سے ہر جگہ مختلف صورتحال ہے۔ یہ نہایت متنوع خطہ ہے جہاں بعض ممالک کے پاس اس سے نمٹنے کی بہت اعلیٰ صلاحیت موجود ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو اس معاملے میں کمزور ہیں۔ بعض ممالک خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بعض وسائل کی کمی کے باعث اس سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ 

ان جرائم کو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے۔ ایسے جرائم کا تجزیہ اور مقابلہ کرنے کے لیے جدید طرز کی ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے۔

لہٰذا ممالک کو علم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے مضبوطی اختیار کرنا ہو گی اور مالی وسائل کا اہتمام کرنا ہو گا۔ دوسری جانب، جرائم پیشہ نیٹ ورک اپنی سرگرمیوں کو نیا انداز اور انہیں تیزی سے ترقی دینے کے لیے ٹیکنالوجی سے بھرپور کام لے رہے ہیں۔

تھائی لینڈ، میانمار، اور لاؤس کی سرحدیں ملنے والی جگہ ’گولڈن ٹرائینگل‘ پر جرائم پیشہ منظم گروہ متحرک ہیں۔
UN News/Daniel Dickinson
تھائی لینڈ، میانمار، اور لاؤس کی سرحدیں ملنے والی جگہ ’گولڈن ٹرائینگل‘ پر جرائم پیشہ منظم گروہ متحرک ہیں۔

یو این نیوز: اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے اور اس میں 'یو این او ڈی سی' کا کیا کردار ہے؟

جیریمی ڈگلس: پہلی اور اہم ترین بات یہ کہ 'یو این او ڈی سی' ممالک اور حکام کو ان جرائم کی سمجھ بوجھ فراہم کرنے میں مدد دے رہا ہے۔ ہم اپنی آگاہی، سوچ اور پروگرامنگ کو بہتر بنانے کے لیے اس صورتحال کے تجزیے کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم حکومتوں کو انہیں درپیش مسائل کے بارے میں آگاہی بھی مہیا کر رہے ہیں۔ 

اس معاملے میں حکومتوں کے ساتھ ہماری بات چیت کا آغاز اس وقت ہوا جب ہم منشیات کی سمگلنگ اور اس سے متعلقہ مالیاتی لین دین سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم جرائم پیشہ نیٹ ورک پہلے سے زیادہ تجربہ کار ہو گئے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کے لیے نت نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں اس لیے ہماری ان جرائم کے ارتکاز و ارتقا پر خاص توجہ ہے۔ 

اس ضمن میں ہم ممالک کے ساتھ ان جرائم کے خلاف کارروائی کی تیاری کے لیے بات چیت کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے مربوط انداز میں کئی طرح کے مسائل سے بیک وقت نمٹنے کے لیے آسیان خطے اور چین کے لیے ایک لائحہ عمل پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہم جنوبی مشرقی ایشیا کی حکومتوں سے موجودہ حالات اور ان کی ضروریات اور صلاحیتوں کے حوالے سے بات چیت بھی کر رہے ہیں۔

اس معاملے میں ممالک کو اکٹھا کرنا بہت اہم ہے تاکہ وہ ایسے اقدامات پر جلد از جلد متفق ہو سکیں جو انہیں اور خطے کو اٹھانا ہیں۔ علاوہ ازیں، اس ضمن میں مہارت اور صلاحیت میں پائی جانے والی کمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ 

یو این نیوز: اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا جا سکا تو کیا ہو گا؟ 

جیریمی ڈگلس: جن جگہوں پر یہ غیرقانونی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں وہاں قانون کی عملداری نہ ہونے کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو یہ جرائم بڑھتے اور پھیلتے جائیں گے۔ ایسے میں ان کی عالمگیر رسائی اور دنیا کے دیگر حصوں میں لوگوں کے خلاف دھوکہ دہی یا اس سے بھی زیادہ سنگین جرائم کے ارتکاب کی اہلیت بڑھ جائے گی۔ 

ایسے جرائم پیشہ گروہ وسعت اور جدت پا کر نہایت طاقتور ہو جائیں گے جس کا نتیجہ خطے کے بعض حصوں میں حکومتی عملداری کے خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے علاقوں میں یہ خدشہ زیادہ ہے جہاں غیرریاستی مسلح گروہوں کا تسلط ہے۔ 

ہمیں اس مسئلے کا فوری، کلی اور حکمت عملی پر مبنی حل یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔