انسانی کہانیاں عالمی تناظر
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس 78ویں سالانہ اجلاس کے اختتام پر اعلیٰ سطحی ہفتے کے دوران ہوئی بحث کو سمیٹ رہے ہیں۔

انٹرویو: جنرل اسمبلی کی قراردادیں انسانی ضمیر کی نمائندہ، ڈینس فرانسس

UN Photo/Cia Pak
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس 78ویں سالانہ اجلاس کے اختتام پر اعلیٰ سطحی ہفتے کے دوران ہوئی بحث کو سمیٹ رہے ہیں۔

انٹرویو: جنرل اسمبلی کی قراردادیں انسانی ضمیر کی نمائندہ، ڈینس فرانسس

اقوام متحدہ کے امور

غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے جنرل اسمبلی میں منظور کردہ حالیہ قرارداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے یہ ادارہ عالمی ضمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی میں کلی اتفاق رائے کبھی نہیں ہوا لیکن جب دو تہائی ارکان کسی بات کے حق میں ہوں تو یہ ہم آہنگی و اتفاق رائے کی قوی علامت اور اس بارے میں طاقتور پیغام ہوتا ہے۔

یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے یو این نیوز سے بات چیت کے دوران گزشتہ مہینے منظور کردہ قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔

ووٹ کے مساوی حقوق

جنرل اسمبلی پالیسی سازی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سب سے بڑے ادارے کی حیثیت سے ایک ایسی جگہ ہے جہاں تمام رکن ممالک کا مساوی ووٹ ہے۔ اسمبلی میں امن و سلامتی سمیت ہر طرح کے معاملات پر رکن ممالک برابر حیثیت میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں۔

ڈینس فرانسس نے ستمبر 2023 میں عہدہ سنبھالا تھا اور وہ ایک سال تک خدمات انجام دیں گے۔ اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے اپنے انتخاب کے بعد وہ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول، مستقبل کی وباؤں سے نمٹنے کی تیاری، تمام انسانوں کو طبی خدمات کی یقینی فراہمی اور سلامتی کونسل میں اصلاحات جیسے موضوعات پر اجلاس کرتے رہے ہیں۔

ان کا شمار ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو کے تجربہ کار سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ یو این نیوز کے ساتھ اس بات چیت میں انہوں نے اپنی ترجیحات، جنرل اسمبلی کے اہم کردار اور ادارے کے نقادوں کی اقوام متحدہ کے ساتھ شمولیت کی اہمیت پر اظہار خیال کیا۔

طوالت اور وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات چیت کو مدون کیا گیا ہے۔

 یو این نیوز: اقوام متحدہ میں اپنی پہلی تقریر میں آپ نے عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ امن، خوشحالی، ترقی اور استحکام آپ کی ترجیحات ہیں۔ آج ان تمام شعبوں میں کسی نہ کسی حد تک خطرات دکھائی دیتے ہیں اور بعض اوقات ان کی وجوہات باہم متراکب ہیں۔ آپ یہ کیسے یقینی بنا رہے ہیں کہ ممالک باہم متحد ہو کر ان مسائل پر قابو پائیں گے؟

 ڈینس فرانسس: جی ہاں، ممالک اس بارے میں متحد ہیں۔ خاص طور پر پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) اور ایجنڈا برائے 2030 اس کا بنیادی سبب ہیں۔ اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ وسیع تر اور باہم اتحاد و اتفاق پیدا کرنے والا ایجنڈا ہے۔ اس کے تحت اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک لوگون کو غربت، محرومی، بھوک اور غذائی قلت سے چھٹکارا دلانے اور ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے اکٹھے ہیں جن سے دنیا کے نظام میں مزید پائیدار طور سے بہتری آئے۔ اس طرح یہ بیک وقت کرہ ارض اور لوگوں کا معاملہ ہے۔

 لیکن ہم دیگر طریقوں سے بھی باہم متحد ہیں۔ کیونکہ جب امن و سلامتی میں خلل آتا ہے، جیسا کہ گزشتہ دو تین سال سے دیکھنے کو مل رہا ہے تو پھر اس کے اثرات سے سبھی متاثر ہوتے ہیں۔

 امن کا فروغ اور اسے ممکن بنانا ہم سب کے مفاد میں ہے کیونکہ امن اور ہم آہنگی کے بغیر نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور اس طرح ہمارے تمام دیگر بڑے اہداف اور مقاصد پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 یو این نیوز: آپ نے امن و سلامتی میں خلل کا تذکرہ کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہمارا بات کرنا ضروری ہے۔ کیا جنرل اسمبلی اس معاملے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتی ہے؟

 ڈینس فرانسس: جی، ہم نے ایسا ہی کیا ہے کیونکہ ڈھائی ہفتے پہلے جنرل اسمبلی نے کامیابی سے ایک قرارداد کی منظوری دی۔ یہ غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے نظام سے آنے والی پہلی قرارداد ہے۔ اس میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کہا گیا ہے۔

 یہاں یہ بات مدنظر رکھنا ہو گی کہ سلامتی کونسل نے چار مختلف مواقع پر ایسی ہی قرارداد پر اتفاق رائے کی کوششیں کی جو ناکام رہیں۔ لہٰذا حقیقت یہ ہےکہ جنرل اسمبلی نے ایسی قرارداد کی منظوری دی ہے جس پر وسیع تر اتفاق رائے تھا۔ 121 ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

 میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کا ایک نمایاں کردار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرح سے ہم ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے اہداف پر پیش رفت کے لیے یہ قرارداد لانے اور اسے منظور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ادارے کا چارٹر انسانیت کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دینے کو کہتا ہے اور اس قرارداد کی منظوری اسی سمت میں ایک قدم ہے۔

 ہم نے اس قرارداد میں واضح طور پر کہا ہے کہ جنرل اسمبلی انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے جنگ بندی کے لیے کہتی ہے۔ غزہ میں دوران جنگ 11 ہزار لوگوں کی ہلاکت بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ ناقابل بیان اور ناقابل قبول بات ہے۔ اسی لیے ہم نے جنگ بندی کے لیے کہا۔ لیکن اس کے ساتھ ہم نے حماس کی قید میں یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

 یو این نیوز: جیسا کہ آپ نے ہمیں یاد دلایا، جنرل اسمبلی 193 ارکان پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کسی پر لازم نہیں۔ اس طرح کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ قرارداد کوئی اخلاقی وزن بھی رکھتی ہے؟

ڈینس فرانسس: یقیناً۔ یہ قراردادیں بین الاقوامی برادری کی اکثریت کی جانب سے ایک سیاسی اعلامیے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک طرح سے انہیں نرم قانون بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں انسانیت اور اس کی غالب اکثریت کے ضمیر کی آواز ہوتی ہیں۔

 اگرچہ قراردادون پر کلی اتفاق رائے کبھی نہیں ہوا لیکن جب دو تہائی ارکان کسی بات کے حق میں ہوں تو یہ ہم آہنگی و اتفاق رائے کی قوی علامت اور اس بارے میں طاقتور پیغام ہوتا ہے۔ ہم تمام متعلقہ فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ اس قرارداد اور بدھ کو سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی قرارداد کا احترام کریں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔

 یو این نیوز: آپ کا کہنا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت کے ضمیر کی آواز ہیں لیکن کیا یہ کافی ہے؟ بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ محض نیک ارادے یا نیک نیتی کی ایک سفارتی شکل ہے۔

 ڈینس فرانسس: لیکن اس چیز کی بھی اہمیت ہے۔ اگر آپ اسمبلی میں ارکان کے موقف اور خیالات کو بغور سنیں تو اصولوں اور اقدار کی بات سامنے آتی ہے اور اس کی اہمیت ہے۔ سیاست کی بنیاد اختلاف رائے پر ہے اس لیے آرا اور خیالات اہمیت اور طاقت رکھتے ہیں۔

 اسی لیے جنرل اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد کی بہت اہمیت ہوتی ہے کیونکہ یہ طاقتور سیاسی پیغام دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممالک ان قراردادوں پر پوری قوت اور لگن سے گفت و شنید کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان قراردادوں کے ممکنہ اثرات کا ادراک ہوتا ہے۔

میں جن بیشتر ممالک سے آگاہ ہوں وہ سیاسی طور پر تنہا ہونا نہیں چاہتے۔ ممالک انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ انسان چاہتے ہیں کہ انہیں سراہا جائے، ان سے محبت کی جائے، وہ اپنے دوستوں کی جانب سے ملنے والے احترام اور تعاون کو پسند کرتے ہیں، وہ دوسروں کے ساتھ شمولیت اور ان سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

ممالک کا بھی یہی معاملہ ہے۔ جب آپ تعلقات قائم کرتے ہیں تو خود مختار ملک کی حیثیت سے آپ کا دائرہ عمل وسیع ہو جاتا ہے۔ جب آپ کے پاس تعاون پر مبنی تعلقات نہیں ہوتے تو پھر آپ کے لیے امکانات بھی نمایاں طور سے محدود ہو جاتے ہیں۔

جنرل اسمبلی کی قرارداد اسی لیے اہم ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام دیتی ہے جو سیاسی طور پر بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ چونکہ ان معاملات میں رائے عامہ کی ہمیشہ اہمیت ہوتی ہے اس لیے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی۔

جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے صدر ڈینس فرانسس اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش کی طرف سے بلائے گئے ’مشترکہ ایجنڈا‘ پر اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Paulo Filgueiras
جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے صدر ڈینس فرانسس اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش کی طرف سے بلائے گئے ’مشترکہ ایجنڈا‘ پر اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

 یو این نیوز: کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی صورتحال آپ کے لیے اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ ایسے بہت سے ممالک عالمی مالیاتی نظام کی موجودہ ساخت کی وجہ سے قرض کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی متعدد مواقع پر اس نظام کو دقیانوسی قرار دیا ہے۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ جنرل اسمبلی اس حوالے سے کون سا اقدام کر سکتی ہے؟

 ڈینس فرانسس: عالمی مالیاتی نظام دور حاضر کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ یہ 1940 کی دہائی کے آخر میں ایسے وقت بنایا گیا تھا جب دور حاضر کے بیشتر ممالک وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ گلوبل ساؤتھ، گروپ آف 77 اور چین سمیت تقریباً 140 ممالک کا اس وقت وجود نہیں تھا۔

لہٰذا، موجودہ عالمی مالیاتی نظام جس وقت قائم کیا گیا وہ کوئی اور دور تھا اور اس کے اہداف و مقاصد میں آج کے ترقی پذیر ممالک کی ضروریات، ترجیحات اور خصوصیات کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

مثال کے طور پر آج ایسے ممالک کو بہت مشکلات کا سامنا ہے جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایسے ممالک میں ہر شے کی قیمت اُن ملکوں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے جن کے ساتھ سمندر لگتا ہے۔ ایسے ممالک کے صارفین کو سمندر والے ممالک کے مقابلے میں ہر چیز کی خریداری دگنے داموں کرنا پڑتی ہے۔ اس سے مشکلات جنم لیتی ہیں۔ جزائر پر مشتمل چھوٹے ترقی پذیر ممالک (ایس آئی ڈی ایس) کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان میں سے بیشتر دنیا سے الگ تھلگ ہیں کیونکہ وہ عالمی منڈیوں سے بہت دور ہیں۔

میں نے ایسے ممالک کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے کیونکہ یہ ترقیاتی اعتبار سے دباؤ میں ہونے کی وجہ سے انتہائی نازک حالات کا شکار ہیں۔

 موجودہ عالمی مالیاتی نظام ایسے ممالک کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں پائیدار طور سے ترقی کا زینہ طے کرنے میں مدد دینے کے لیے نہیں بنایا گیا۔

 یو این نیوز: میں آپ سے ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے بارے میں بات کرنا چاہوں گی۔ یقیناً یہ اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے آپ کا پہلا اجلاس تھا لیکن آپ اقوام متحدہ کے لیے نئے فرد نہیں ہیں۔ کیا آپ کے لیے اس اجلاس میں کوئی خاص یا نئی بات بھی تھی؟

 ڈینس فرانسس: یہ دیگر اجلاسوں سے بہت مختلف تھا کیونکہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئی خاص موضوعات پر بھی بات چیت ہوتی ہے۔ ایس ڈی جی کانفرنس ایسا ہی ایک اجلاس تھا جو کامیاب رہا۔ میں اس حوالے سے سیکرٹری جنرل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہم نے اس ہفتے صحت کے مسائل پر تین اہم اعلامیوں کی منظوری بھی دی۔

 جیسا کہ آپ جانتے ہیں، وبا نے دنیا کی بہت سی انتظامی خامیاں آشکار کر دی ہیں۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں یہ جاننے کی خواہش پائی جاتی تھی کہ مستقبل میں ایسی ہی کسی اور وبا سے نمٹنے کے لیے ہم نے کون سے اسباق سیکھے ہیں۔ موسمیاتی سائنس دان ہمیں تواتر سے متنبہ کرتے چلے آئے ہیں کہ عالمی حدت میں اضافے کے باعث مستقبل میں تواتر سے وبائیں آ سکتی ہیں جو ممکنہ طور پر بہت تیز رفتار سے اور وسیع پیمانے پر پھیلیں گی۔

 لہٰذا، عملیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں مستقبل کی وباؤں کا بہتر طور سے مقابلہ کرنے کا انتظام کرنا ہے۔ سربراہان ریاست و حکومت نے وباؤں سے نمٹنے کی تیاری، ان کی روک تھام اور ان کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ایک اعلامیے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے دنیا میں ہر فرد کو طبی خدمات تک رسائی دینے اور تپ دق پر قابو پانے کے بارے میں بھی اعلامیے کی منظوری دی جو دنیا میں دوبارہ پھیلنے لگا ہے۔

 یو این نیوز: آخری بات یہ کہ، بعض لوگ تنقید کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ ایک دقیانوسی اور غیرموثر ادارہ ہے۔ ایسے لوگ جنرل اسمبلی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آپ ایسی تنقید کا دفاع کیسے کریں گے؟

 ڈینس فرانسس: پہلی بات یہ کہ لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے۔ میں ان کی حوصلہ افزائی کروں گا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ وہ ہمارے ساتھ قدرے زیادہ شمولیت اختیار کریں کیونکہ ایک منٹ دورانیے کی خبر میں جو کچھ دکھائی اور سنائی دیتا ہے وہ اقوام متحدہ کے پورے کام کا احاطہ نہیں کرتا۔

 میں یہ بھی کہوں گا کہ اقوام متحدہ اس حقیقت کے حوالے سے غیرحساس نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی کارکردگی کے بارے میں جوش و جذبے کا فقدان اور مایوسی دکھائی دیتی ہے۔

 لیکن یہاں مجھے یہ کہنا ہےکہ اقوام متحدہ بذات خود کوئی شے نہیں بلکہ یہ 193 خود مختار حکومتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ لفظ 'خود مختار' بہت اہم ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک اپنے قومی مفادات اور ترجیحات کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلے کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ ان کے لیے اکٹھے ہونے اور بہت سے عالمگیر مسائل کے بارے میں مشترکہ طریقہ ہائے کار پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔

 لہٰذا میں یہ پوچھتا ہوں کہ، اگر اقوام متحدہ کی اہمیت نہیں ہے تو اس کا متبادل کیا ہے؟ اگر کوئی نہیں تو پھر میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ خدا کا شکر ہے کہ اقوام متحدہ وجود رکھتا ہے۔ یہ 193 ممالک کے مابین ارتباط، مشاورت اور تعاون کا انتہائی ضروری پلیٹ فارم ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ان کے پاس مل بیٹھنے، باہمی تعاون اور عالمگیر مسائل کو حل کرنے کا کوئی ذریعہ اور موقع نہ ہوتا۔

یہ ایک طاقتور اور ممکنہ طور پر نئی اور بہت اہم کامیابی ہے جو اقوام متحدہ کو کئی سال میں حاصل ہوئی اور اس کے ساتھ اس نے تیسری عالمی جنگ کو بھی روکا۔