یورپی ممالک کا بارودی سرنگوں کی ممانعت کے معاہدے سے نکلنے پر غور تشویشناک
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے چھ یورپی ممالک کی جانب سے انسانوں کے خلاف استعمال کی جانے والی بارودی سرنگوں کی ممانعت کے بین الاقوامی معاہدے سے دستبرداری یا اس پر غور کرنے کے اقدام کو باعث تشویش قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بارودی سرنگوں سے شہریوں، بالخصوص بچوں کی زندگی کو طویل مدتی طور پر سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بین الاقوامی انسانی قوانین سے متعلق دیگر معاہدوں کی طرح بارودی سرنگوں کے خلاف اٹاوا کنونشن کا مقصد بھی مسلح تنازعات میں فریقین کے طرزعمل کو منظم کرنا تھا۔ تاہم اس معاہدے سمیت بارودی سرنگوں کی ممانعت کے قوانین پر محض زمانہ امن میں عمل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ ایسٹونیا، فن لینڈ، لٹویا، لیتھوانیا، پولینڈ اور یوکرین اس کنونشن سے دستبرداری پر غور کر رہے ہیں جس کے تحت بارودی سرنگوں کے استعمال، انہیں ذخیرہ کرنے، ان کی تیاری اور منتقلی کی ممانعت ہے۔
وولکر ترک نے کہا ہے کہ مسلح تنازعات کے دوران بارودی سرنگوں کے امتناع سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کو معطل کرنے یا روکنے سے بین الاقوامی انسانی قانون کے فریم ورک کو سنگین نقصان کا خدشہ ہے۔
شہریوں کے لیے سنگین خطرہ
بارودی سرنگوں کی دو بنیادی اقسام ہیں جن میں ایک انسانوں اور دوسری گاڑیوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ تاہم یہ دونوں خود بخود پھٹتی ہیں اور ان سے بڑی تعداد میں شہریوں خاص طور پر بچوں کے ہلاک ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
بارودی سرنگوں کے خطرات جنگ کے بعد بھی برقرار رہتے ہیں اور کھیتوں، کھیل کے میدانوں اور گھروں سمیت ہر جگہ ان کی موجودگی شہریوں کے لیے تباہی اور موت لاتی ہے۔
اٹاوا کنونشن پر 1997 میں اتفاق کیا گیا تھا جو ان سرنگوں کی تیاری، استعمال اور منتقلی کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اس وقت 166 ممالک کنونشن کے فریق ہیں اور اس کی بدولت انسانوں کے خلاف استعمال ہونے والی بارودی سرنگوں کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
امتناع کی خلاف ورزی
حالیہ عرصہ میں بارودی سرنگوں کے امتناع کی خلاف ورزی کا رجحان عام ہوا ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال ان سرنگوں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔ ان میں 85 فیصد انسانی نقصان عام شہریوں کا ہوا اور اس میں نصف تعداد بچوں کی تھی۔
اگرچہ بارودی سرنگوں کے استعمال کی روک تھام کے حوالے سے گزشتہ دہائیوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے لیکن اب بھی 60 ممالک میں 100 ملین سے زیادہ لوگوں کو ان سے خطرات لاحق ہیں۔ مثال کے طور پر، اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کے مطابق، یوکرین میں 20 فیصد (ایک لاکھ 39 ہزار مربع کلومیٹر) علاقے پر بارودی سرنگیں موجود ہیں۔
کولمبیا میں بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بہت سا کام ہوا ہے لیکن مسلح تنازع ختم ہونے سے دو دہائیاں بعد بھی ان سے شہریوں کو نمایاں خطرات لاحق ہیں۔
بین ال قانون کی پاسداری کا مطالبہ
وولکر ترک نے اٹاوا کنونشن کے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ انسانوں کے خلاف استعمال ہونے والی بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور جن ممالک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے وہ بھی اس کے فریق بنیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بارودی سرنگوں سے لوگوں کی بڑی تعداد کی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ تمام رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ اس خطرے کے خلاف کسی بھی بین الاقوامی قانونی معاہدے کو ترک نہ کریں اور اگر کوئی ملک ایسا کرنے پر غور کر رہا ہے تو وہ اس عمل کو فی الفور روک دے۔