انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خلائی ٹیکنالوجی منزل نہیں بلکہ مستقبل کی بنیاد ہے، امینہ محمد

ایک خلائی مشن کے دوران زمین کی لی گئی تصویر۔
© NASA
ایک خلائی مشن کے دوران زمین کی لی گئی تصویر۔

خلائی ٹیکنالوجی منزل نہیں بلکہ مستقبل کی بنیاد ہے، امینہ محمد

پائیدار ترقی کے اہداف

خلائی ٹیکنالوجی اب کوئی دور کی بات نہیں رہی بلکہ روزمرہ زندگی اور عالمی ترقی کی بنیاد بن گئی ہے۔ قدرتی آفات سے بچاؤ اور موسمیاتی نگرانی سمیت بہت سے کاموں کے لیے دنیا کا مصنوعی سیاروں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے اور خلائی شعبے میں بین الاقوامی تعاون کی ضرورت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے خلا کے پرامن استعمال پر اقوام متحدہ کے فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی سیاروں (سیٹلائٹ) کے بغیر عالمگیر غذائی نظام چند ہفتوں میں ہی منہدم ہو سکتے ہیں، ہنگامی مدد پہنچانے والوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور موسمیاتی سائنس دانوں کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ان سیاروں کے بغیر پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کی امیدیں بھی دم توڑ جائیں گی۔

Tweet URL

انہوں نے سپین میں مالیات برائے ترقی کے موضوع پر جاری اقوام متحدہ کی کانفرنس کا پیغام دہراتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی مقاصد کے لیے مالی وسائل کی قلت کے تناظر میں سرمایے کو ایسے اقدامات سے جوڑنا ہو گا جن کے انتہائی موثر اثرات سامنے آئیں اور خلا بھی انہیں میں سے ایک ہے۔

بین الاقوامی خلائی تعاون

خلا کے پرامن استعمال پر اقوام متحدہ کی کمیٹی نے سات دہائیوں کے عرصہ میں پانچ خلائی معاہدوں، پائیدار خلائی ترقی کے لیے رہنمائی اور 2030 کے خلائی ایجنڈا کے ذریعے بین الاقوامی خلائی تعاون کو فروغ دیا ہے۔

امینہ محمد نے خلائی امور کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر (اوسا) کے ذریعے خلا کو مزید قابل رسائی بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو واضح کیا۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے نصف سے زیادہ ایسے رکن ممالک کی مدد خاص طور پر اہم ہے جن کا خلا میں کوئی مصںوعی سیارہ موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اوسا کے پروگرام ترقی پذیر ممالک میں نوجوانوں اور خواتین کے لیے مواقع لا رہے ہیں اور ان کی بدولت خلائی ماہرین کی ایک نئی نسل سامنے آ رہی ہے۔

ان سے رکن ممالک کو تکنیکی ورکشاپوں اور نئے پروگراموں کے لیے معاونت جیسے اقدامات کے ذریعے خلائی صلاحیتوں کے حصول میں بھی مدد ملتی ہے۔ کینیا، گوئٹے مالا، مولڈووا اور ماریشس جیسے ممالک نے انہی پروگراموں کے ذریعے اپنے پہلے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے ہیں۔

علاوہ ازیں، ان پروگراموں کی بدولت ٹونگا، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو اور گھانا جیسے ممالک نے مصنوعی سیاروں سے حاصل ہونے والی معلومات سے کام لیتے ہوئے پورے کے پورے شہروں کے لیے ایسے تفصیلی ڈیجیٹل اقدامات کیے ہیں جن سے قدرتی آفات کے خطرات میں کمی لانا اور زندگیوں کو تحفط دینا ممکن ہوا ہے۔

خلا اور پائیدار ترقی

امینہ محمد نے کہا کہ اقوام متحدہ نے تیزرفتار پائیدار ترقی کے لیے جن شعبوں کو اہم قرار دیا ہے ان کا دارومدار خلائی ٹیکنالوجی پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خلا سے زمین کو دیکھیں تو کوئی ملک اور کوئی سرحد دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے بجائے ہمیں ایک سیارہ ہی نظر آتا ہے جو انسانوں کا مشترکہ گھر ہے۔ تمام ممالک کو یہی بات مدنظر رکھتے ہوئے خلائی کھوج اور استعمال کے انتظامی طریقہ کار وضع کرنا ہوں گے اور خلا کو 'ایس ڈی جی' کے حصول کی جانب تیزرفتار پیش رفت کے لیے کام میں لانا ہو گا۔