سلامتی کونسل: کرپشن کے باوجود عراق استحکام کے راستے پر گامزن، محمد الحسن
عراق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے محمد الحسن نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران ملک نے کئی مثبت اقدامات اٹھائے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تنازع کا حصہ نہیں بنا لیکن بدعنوانی اور دیگر مسائل کی صورت میں اسے اب بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد کونسل کے روبرو اپنی پہلی بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ آج کا عراق 20 برس یا پانچ برس پہلے جیسا نہیں ہے۔ اب یہ ملک کہیں زیادہ محفوظ و مستحکم ہو چکا ہے اور اس میں بحرانوں پر قابو پانے کی اہلیت ہے تاہم محفوظ، روشن اور پرامید مستقبل کی جانب اسے مزید کام کرنا ہو گا۔
علاقائی امن و استحکام کا فروغ
خصوصی نمائندے کا کہنا تھا کہ عراق کی حکومت نے ملک کو علاقائی تنازع سے دور رکھنے کے مضبوط عزم کا مظاہرہ کیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے مضبوطی سے آواز اٹھائی ہے۔
عراقی وزیراعظم علاقائی تناؤ میں کمی لانے کا تواتر سے مطالبہ کرتے آئے ہیں اور انہوں نے عراق کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حکومت نے عراق کو نقل و حمل، توانائی کی ترسیل اور تجارت کی ایک اہم راہداری بھی بنایا ہے اور خطے میں شراکتوں سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ایسے اقدامات سے علاقائی انضمام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے عراق کی کوششوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
ملک گیر مردم شماری
محمد الحسن نے کونسل کو بتایا کہ گزشتہ مہینے ملک میں مردم شماری کا انعقاد عمل میں آیا اور پہلی مرتبہ اس میں نیم خودمختار علاقے کردستان کو بھی شامل کیا گیا۔ اس طرح اب فیصلہ سازوں کو قابل بھروسہ حقائق اور اعدادوشمار کی بنا پر منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔
مردم شماری کے ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کی آبادی گزشتہ 30 سال میں دو گنا بڑھ کر 45 ملین تک پہنچ چکی ہے۔
اہم سیاسی تقرری
ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر میں عوامی نمائندگان کی کونسل یا عراقی پارلیمنٹ کے نئے سپیکر کا انتخاب ایک اہم پیش رفت تھی۔ یہ عہدہ ایک سال سے خالی تھا اور اسے پر کرنے کی متعدد کوششیں ناکامی پر منتج ہوئی تھیں۔
وزیراعطم محمد شیاع السودانی ملک بھر میں بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں جن میں سڑکوں، پلوں، سکولوں اور نقل و حمل کے نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے۔
کرد علاقوں میں پیش رفت
محمد الحسن نے بتایا کہ کردستان میں بھی مثبت پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے جہاں 20 سالہ بات چیت اور تاخیر کے بعد 20 اکتوبر کو پارلیمانی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔ عراق کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے بھی انتخابات میں معاونت کی جن میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔ اس دوران ٹرن آؤٹ 72 فیصد رہا جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ تھا۔ پارلیمنٹ کی 100 میں سے 31 نشستیں خواتین نے جیتیں اور اس طرح ان کی تعداد 30 فیصد کے کم از کم کوٹے سے بھی تجاوز کر گئی۔
نئی علاقائی حکومت کی تشکیل کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین بات چیت جاری ہے۔ وزیراعظم شیاع نے بھی کردستان کے دارالحکومت اربیل کا دورہ کیا جو کہ عراق کی وفاقی حکومت اور کردستان کے مابین اہم امور پر بات چیت کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے۔

بدعنوانی اور حقوق کے لیے خطرات
انہوں نے بتایا کہ ان مثبت تبدیلیوں کو ملک میں منظم بدعنوانی سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ جامع تبدیلیوں اور اصلاحات کے ذریعے احتساب کے عمل کو بہتر بنانے، استعداد کار میں اضافہ کرنے، شفافیت کو فروغ دینے اور حکومتی نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں حکومت کے اقدامات حوصلہ افزا ہیں۔
بدعنوانی پر قابو پانے کے علاوہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو تحفظ دینے کے لیے بھی ریاستی اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
شادی کا متنازع قانون
انہوں نے کہا کہ عراق میں عائلی قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں کے تناظر میں عوامی سطح پر بہت سے بات ہو رہی ہے جبکہ یہ معاملہ عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بھی بن گیا ہے۔ اس قانون کے خواتین اور لڑکیوں پر دور رس اثرات ہوں گے۔
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے حالیہ دنوں کہا تھا کہ اس قانون میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سال سے کم کر کے نوسال کی جا رہی ہے جو باعث تشویش ہے۔
محمد الحسن کا کہنا تھا کہ عراق میں اقوام متحدہ کا مشن اس مجوزہ قانون پر حکومت اور دیگر فریقین سے بات چیت کر رہا ہے۔

یزیدیوں کی مشکلات
خصوصی نمائندے نے کونسل کو بتایا کہ ملک میں بے گھر لوگوں کے کیمپوں میں دہشت گرد گروہ داعش کے اثرات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت یزیدی لوگوں کی ہے جو داعش کے بدترین مظالم کا سامنا کر چکے ہیں اور اب کیمپوں میں انہیں رہن سہن کے کڑے حالات کا سامنا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ عراق کی حکومت ان لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کرے گی کیونکہ وہ بہتر کے حقدار ہیں۔وزیراعظم کی جانب سے اقوام متحدہ کے ساتھ مشاورت کے بعد اس مسئلے پر اعلیٰ سطحی قومی کمیٹی کا قیام درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ عراق کو یزیدیوں اور دیگر بے گھر لوگوں کی اپنے علاقوں کو واپسی کے لیے حالات سازگار بنانا ہوں گے۔
شام کے کیمپوں سے واپسی
انہوں نے کہا کہ عراق کے شہری اب بھی شمال مشرقی شام کے الہول کیمپ میں موجود ہیں۔ ان لوگوں پر داعش کے ساتھ روابط کا الزام ہے جن میں بچوں سمیت مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ عراق کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے شہریوں کو اس کیمپ سے واپس لا رہے ہیں تاہم، ان لوگوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
محمد الحسن کا کہنا تھا کہ عراقی حکومت اور اس کے اداروں نے اپنے ملک کے شہریوں کو الہول اور شمال مشرقی شام میں واقع دیگر کیمپوں سے واپس لانے کے وعدوں کو دہرایا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ سال کے اختتام تک یہ کام مکمل ہو جائے گا اور دیگر ممالک کو بھی یہی کچھ کرنا چاہیے۔