انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کھیلوں پر طالبان کی پابندی کے خلاف اقدامات کا مطالبہ

پیرس اولمپکس میں پناہ گزین کھلاڑیوں کی ٹیم کی انچارج اففانستان سے تعلق رکھنے والی معصومہ علیزادہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے۔
© IOC/Greg Martin
پیرس اولمپکس میں پناہ گزین کھلاڑیوں کی ٹیم کی انچارج اففانستان سے تعلق رکھنے والی معصومہ علیزادہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے۔

خواتین کھیلوں پر طالبان کی پابندی کے خلاف اقدامات کا مطالبہ

خواتین

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے کھیلوں کے قومی و بین الاقوامی اداروں سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے طالبان حکمرانوں کی جانب سے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے کھیل پر پابندیوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کریں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً تین سال سے طالبان نے ملکی خواتین اور لڑکیوں پر ہر طرح کے کھیل میں حصہ لینے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے جو کہ ان کے حقوق کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔ دنیا میں کسی اور ملک نے خواتین اور لڑکیوں پر ایسی کوئی پابندیاں نافذ نہیں کیں۔

Tweet URL

 

یہ پابندی طالبان کی جانب سے جنسی اور صنفی بنیاد پر تفریق اور جبر کے منظم سلسلے کا حصہ ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہو سکتے ہیں۔

ماہرین نے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے نام خط میں کہا ہے کہ کھیلوں کے بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ طالبان کی جابرانہ پالیسیوں کی مخالفت کریں اور ہر جگہ افغان خواتین کھلاڑیوں کو حمایت اور تعاون مہیا کریں۔ انہیں ایسے اقدامات نہیں کرنا چاہئیں جن سے ان کھلاڑیوں کے خلاف امتیازی سلوک اور غیرقانونی پالیسیوں کو تقویت ملے۔

جبر اور اخراج کی مخالفت

اس پابندی کے باوجود جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے افغان کھلاڑی فرانس کے دارالحکومت پیرس میں جاری اولمپک اور پیرالمپک کھیلوں میں افغانستان اور پناہ گزینوں کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کے لیے اولمپکس میں شرکت 'آئی او سی' کی کاوشوں سے ممکن ہوئی۔

پیرس اولمپک کھیلوں میں صنفی اعتبار سے متوازن افغان ٹیم کے لیے 'آئی او سی' کی حمایت خوش آئند ہے لیکن اس معاملے میں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کی اولمپک ٹیم تین خواتین اور تین مردوں پر مشتمل ہے جس نے اولمپک کھیلوں میں طالبان حکومت کا پرچم نہیں اٹھایا جبکہ طالبان حکمران خواتین کھلاڑیوں کو ٹیم کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی باصلاحیت کھلاڑیوں کو پیرس اولمپکس سمیت کھیلوں کے دیگر مقابلوں میں دیکھنا متاثر کن ہے جبکہ انہیں اپنے ملک میں عوامی زندگی سے دور کر دیا گیا ہے۔ کھیلوں میں ان کی شرکت طالبان کے منظم جبر اور خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے روا رکھی گئی اخراج کی پالیسی کی مخالفت کا اظہار ہے۔

کھیلوں کے اداروں کی ذمہ داری

اقوام متحدہ کے ماہرین نے 'آئی او سی' پر زور دیا ہے کہ کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیموں اور قومی اولمپک کمیٹیوں سمیت پوری اولمپک تحریک کی جانب سے افغان خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے اور انہیں مالی وسائل مہیا کیے جائیں۔ کاروبار اور انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں، انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے اور اولمپک چارٹر کے تحت کیے گئے وعدوں کی رو  سے کھیلوں کے اداروں پر ایسا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اولمپک تحریک کے بعض ارکان کھیلوں میں خواتین کی مساوی اور غیرامتیازی شرکت کے حق سے متعلق اپنی ادارہ جاتی ذمہ داریوں کو پورا نہ کر سکتے یا ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ماہرین نے افغان حکمرانوں سے کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو ان کے حقوق اور وقار سے ہولناک طور پر محروم رکھنے اور کھیلوں میں ان کی شرکت پر پابندی کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔ ثقافت کو انسانی حقوق کی پامالی کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ماہرین و خصوصی اطلاع کار

غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔