مشرق وسطیٰ میں پھیلتی کشیدگی کے بچوں کی زندگیوں پر بھیانک اثرات، یونیسف
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے تشدد اور حملوں سے علاقے میں بچوں کی زندگیوں پر خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یونیسف کی علاقائی ڈائریکٹر آڈیل خودر کا کہنا ہے کہ خطے کے بہت سے ممالک میں بچوں کی زندگی غیریقینی حالات اور تشدد کا شکار ہے۔ تقریباً ہر حملے کے بعد یہ خبر آتی ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایک سال سے بھی کم وقت میں فلسطینی علاقوں، اسرائیل، لبنان اور مقبوضہ گولان میں ہزاروں بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔
بہت سے بچوں کو ایسے زخم آئے ہیں جن کے نشان عمر بھر ان کے جسم پر رہیں گے اور اس سے ان کی ذہنی صحت کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ بہت سے بچوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے جو ہر وقت غیریقینی کیفیت اور خوف کا شکار ہیں۔
بدترین بگاڑ کا اندیشہ
آڈیل خودر نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں بچوں کو درپیش حالات مزید بدترین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ تشدد میں اضافے کے سنگین انسانی نتائج ہوں گے اور مزید بڑی تعداد میں بچوں کی زندگی اور بہبود خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس سے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے امکانات بھی طویل مدتی طور پر متاثر ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی زندگی اور بہبود کو تحفظ دینے کے لیے کشیدگی میں فوری کمی لانا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنا سخت بے حسی ہو گی۔
تحمل، تحفظ اور امن
انہوں نے یونیسف کی جانب سے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر زیادہ سے زیادہ تحمل اختیار کریں اور شہریوں کے ساتھ ان ضروری خدمات کو بھی تحفظ فراہم کریں جن پر وہ انحصار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار ضروری اشیا و خدمات کی فراہمی اور بچوں کے تحفظ میں مدد دینے کے لیے علاقے میں موجود ہیں۔ تاہم، بچوں کو امن و سلامتی کے ساتھ محرومی یا خوف سے آزاد باوقار زندگی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس کا آغاز کشیدگی کا خاتمہ کرنے، مسائل کا پائیدار سیاسی حل ڈھونڈنے اور روشن مستقبل کے لیے وعدے سے ہو گا۔
ہسپتالوں کے اذیت ناک حالات
یونیسف کے افسر اطلاعات سالم اویس نے کہا ہے کہ غزہ کے حالات ٹی وی سکرینوں یا ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر دکھائی جانے والی تباہی سے کہیں زیادہ برے ہیں۔
غزہ کے متعدد ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہاں ہر جگہ زخمی اور بیمار بچے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض کو سرطان اور دیگر مہلک امراض لاحق ہیں جو خصوصی طبی نگہداشت کا تقاضا کرتے ہیں جو غزہ کے ہسپتالوں میں کہیں بھی دستیاب نہیں۔
انہوں نے یو این نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ مریضوں اور زخمیوں کی موجودگی کے باعث بہت سے لوگوں کو راہداریوں میں فرش پر ہی علاج معالجے کی سہولت مہیا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہر طرف چیخیں سنائی دیتی ہیں اور اذیت دکھائی دیتی ہے۔
یونیسف، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے اشتراک سے تقریباً پانچ لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم اس کوشش کا دارومدار ویکسین تک رسائی اور اسے غزہ بھر کے بچوں تک پہنچانے کی صلاحیت پر ہو گا۔
تعلیم کی بحالی کا اقدام
ہنگامی حالات اور طویل بحرانوں میں تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے تعاون سے قائم کردہ عالمی فنڈ 'ایجوکیشن کین ناٹ ویٹ' (ای سی ڈبلیو) نے غزہ کے بچوں کو سیکھنے کے معیاری مواقع اور ذہنی صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لیے 20 لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔
'ای سی ڈبلیو' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر یاسمین شریف نے کہا ہے کہ جنگ کے باعث تقریباً 625,000 بچے تعلیم سے محروم ہیں اور حملوں میں 370 سکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔حالیہ جنگ کے آغاز سے پہلے بھی غزہ کے تقریباً تین چوتھائی بچوں (تقریباً آٹھ لاکھ) کو ذہنی صحت اور نفسیاتی مدد کی خدمات درکار تھیں۔
ان کا کہنا ہے اگرچہ اس مدد سے بچوں کی ذہنی صحت اور تعلیمی عمل کو بحال کرنے میں مدد ملے گی تاہم یہ ضروریات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک سال کے لیے دی جانے والی یہ مدد نارویجن رفیوجی کونسل (این آر سی) کی جانب سے فلسطین میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے پروگرام کے تحت فراہم کی جائے گی جس کا مقصد بچوں اور نوعمر افراد کو سیکھنے کے بہتر حالات مہیا کرنا ہے۔' ای سی ڈبلیو' 2019 سے فلسطینی ریاست کو مالی مدد مہیا کر رہا ہے اور اب تک اس نے مجموعی طور پر تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر فراہم کیے ہیں۔