بنگلہ دیش دوراہے پر لیکن بہتر مستقبل کی امید برقرار، یو این اہلکار
بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کی ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر گوئن لیوس نے کہا ہے کہ کئی ہفتوں سے جاری خونریز احتجاج کے بعد وزیراعظم کے استعفے اور ملک سے روانگی پر خوشی کے ساتھ نئی حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے تشویش کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔
انہوں نے یو این نیوز کی انشو شرما کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ بنگلہ دیش بھر میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور دیگر لوگ حکومت کے خاتمے کی خوشی میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے پر منائے جانے والے جشن میں پرتشدد واقعات بھی دیکھنے کو ملے۔ لوگوں نے توڑ پھوڑ کی، پولیس سٹیشن حملوں کا نشانہ بنے اور سابق حکومت کے احکامات پر عمل کرنے پر پولیس اہلکاروں کو ہلاک بھی کیا گیا۔
بدترین خونریزی
گزشتہ ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش میں طلبہ کے زیرقیادت احتجاجی مظاہروں میں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی خونریزی تھی۔
ملک میں بے چینی کا آغاز جولائی میں اس وقت ہوا جب طلبہ سرکاری نوکریوں میں ایک مخصوص کوٹے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اگرچہ حکومت نے مظاہرین کے مطالبے کو بڑی حد تک تسلیم کرتے ہوئے اس کوٹے میں کمی کر دی تھی لیکن وزیراعظم کے استعفے اور مظاہرین پر سختی کرنے والے حکام کے خلاف قانونی کارروائی کے مطالبے کو لے کر احتجاج دوبارہ شروع ہو گیا۔
شیخ حسینہ جنوری 2009 سے ملک میں برسراقتدار تھیں اور قبل ازیں 1996 سے 2001 تک بھی ملک پر حکومت کر چکی تھیں۔
گوئن لیوس نے بتایا ہے کہ منگل کو ملک میں قدرے امن و سکون برقرار رہا تاہم عبوری حکومت کی تشکیل تک صورتحال بدستور غیریقینی ہے۔ اطلاعات کے مطابق نوبیل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کی قیادت کریں گے۔
احتجاج کیسے شروع ہوا؟
بنگلہ دیش میں احتجاج کے نتیجے میں وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر نے کہا کہ سبھی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے انتخابات انتہائی متنازع تھے اور ملک بھر میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ انتخابی عمل کسی طور آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور شفاف نہیں تھا۔
خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی تھی اور بڑی تعداد میں غریب آبادی مزید غربت کا شکار ہونے لگی۔
جون میں جب حکومت نے اشرافیہ سمجھے جانے والے طبقے کے لیے سرکاری نوکریوں میں مخصوص کوٹے کے حوالے سے ایک عدالتی حکم کا اعلان کیا تو ہر سال تعلیم مکمل کرنے والے 20 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوانوں کی مشکلات اور بھی بڑھ گئیں۔
معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے احتجاج میں حصہ لیا جو اس تبدیلی کا مطالبہ کر رہے تھے جو انہوں نے دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں رونما ہوتے نہیں دیکھی تھی۔
مستقبل کے لیے امید
گوئن لیوس نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں دیکھی جانے والی ابتری کے باوجود ملک بھر کے لوگوں کو اچھے مستقبل کی امید ہے۔
ملک میں عبوری حکومت قائم ہو جائے اور اس میں نوجوانوں کی آواز بھی سنی جائے تو بہتر مستقبل کی جانب بڑھنا اور بنگلہ دیش کے لیے 2030 تک پائیدار ترقی کے ایجنڈے پر کامیابی سے عملدرآمد کرنا ممکن ہے۔
ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر نے کہا کہ بنگلہ دیش اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے اور امید ہے کہ موجودہ صورتحال بہتری کی طرف جائے گی اور اقوام متحدہ بنگلہ دیش کے لوگوں کو ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے میں مزید مدد دے سکے گا۔