کووڈ۔19 دنیا بھر میں صحت عامہ کے لیے پھر ایک خطرہ، ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں کووڈ۔19 دوبارہ پھیل رہا ہے اور اولمپک کھیلوں سمیت ہر جگہ بڑی تعداد میں لوگ اس کا نشانہ بن رہے ہیں جبکہ اس کے پھیلاؤ میں جلد کمی آتی دکھائی نہیں دیتی۔
'ڈبلیو ایچ او' نے یہ بھی بتایا ہے کہ بہت جلد اس بیماری کا باعث بننے والے وائرس کی مزید خطرناک اقسام سامنے آ سکتی ہیں۔ ادارے میں وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر ماریا وان کیرخوو نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 دنیا بھر کے تمام ممالک میں موجود ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے ویکسین کے بارے میں آگاہی کو بڑھانا ہو گا۔
تبدیل ہوتا اور پھیلتا وائرس
84 ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق کئی ہفتوں سے 'سارس۔سی او وی۔2 وائرس' کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر میں اوسطاً 10 فیصد لوگوں کے کووڈ ٹیسٹ مثبت آئے ہیں تاہم مختلف خطوں میں اس کے پھیلاؤ کی شرح ایک دوسرے سے الگ ہے۔ اس وقت یورپ میں کووڈ کا ٹیسٹ کرانے والے 20 فیصد سے زیادہ لوگوں میں وائرس موجود ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ براعظم ہائے امریکہ، یورپ اور مغربی الکاہل خطے کے ممالک میں بڑی تعداد میں لوگ کووڈ میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ گندے پانی کی نگرانی اور تجزیے سے ظاہر ہوتا ہےکہ اس میں وائرس کی موجودگی حالیہ اطلاعات کے مقابلے میں دو سے 20 گنا زیادہ ہے۔
شمالی کرے میں موسم گرما کے دوران بڑی تعداد میں لوگ تنفسی وائرس کا نشانہ نہیں بنتے جو عام طور پر سرد ماحول میں پھیلتا ہے۔ تاہم، موسم سے قطع نظر، حالیہ مہینوں میں بہت سے ممالک میں کووڈ۔19 وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پیرس میں جاری اولمپک کھیلوں میں بھی کم از کم 40 کھلاڑی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر کیرخوو نے کہا ہے کہ یہ وائرس متواتر خود کو تبدیل کر رہا ہے اور پھیل رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس کی ایسی خطرناک اقسام سامنے آ سکتی ہیں جن کا موجودہ نظام کے ذریعے کھوج لگانا ممکن نہیں ہو گا اور ان پر موجودہ ویکسین یا علاج معالجہ بھی اثر نہیں کرے گا۔
بڑے پیمانے پر ویکسین کی ضرورت
اگرچہ فی الوقت ہسپتالوں میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے تاہم، 'ڈبلیو ایچ او' نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو ویکسین لگانے کی مہمات کو بہتر کریں اور یقینی بنائیں کہ جن لوگوں کو اس بیماری سے زیادہ خطرات لاحق ہیں انہیں ہر سال کم از کم ایک مرتبہ ویکسین ضرور دی جائے۔
'ڈبلیو ایچ او' نے تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں ویکسین کی دستیابی میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ متعدد اداروں نے کووڈ۔19 ویکسین تیار کرنا بند کر دی تھی۔
ڈاکٹر کیرخوو کا کہنا ہے کہ ان اداروں کے لیے وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، ان کے لیے ویکسین تیار کرنے کی سابقہ رفتار قائم رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے جو انہوں نے 2021 اور 2022 میں اختیار کر رکھی تھی۔ تاہم کووڈ۔19 کی مارکیٹ بدستور موجود ہے اور بڑے پیمانے پر ویکسین کی ضرورت برقرار رہے گی۔
ڈبلیو ایچ او کا خدشہ
انہوں نے کہا ہے کہ ناک کے ذریعے لی جانے والی ویکسین تاحال تیاری کے مراحل میں ہیں تاہم ان کے ذریعے وائرس کی ایک سے دوسرے فرد کو منتقلی روکی جا سکتی ہے اور کووڈ۔19 کی نئی اقسام سے لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح بیماری کے پھیلاؤ اور اس کی شدت میں بھی کمی آ سکتی ہے۔
تاہم انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کووڈ کی پہلے سے زیادہ خطرناک اقسام سامنے آتی ہیں تو ویکسین کی کمیابی کے باعث خطرے کی زد پر موجود لوگوں کی بڑی تعداد اس بیماری کا شکار ہو سکتی ہے۔