انسانی کہانیاں عالمی تناظر

فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی تسلط بارے عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل کا مطالبہ

عالمی عدالت انصاف نے اس سال 19 جولائی کو قرار دیا تھا کہ غزہ کی پٹی اور مغربی علاقے بشمول مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔
© ICJ/Frank van Beek
عالمی عدالت انصاف نے اس سال 19 جولائی کو قرار دیا تھا کہ غزہ کی پٹی اور مغربی علاقے بشمول مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔

فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی تسلط بارے عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل کا مطالبہ

انسانی حقوق

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے غیرقانونی قرار دینے کو سراہتے ہوئے اسرائیل اور دیگر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ عدالتی رائے پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بالآخر عدالت نے ایسے اصول کی توثیق کر دی ہے جو اقوام متحدہ کے لیے بھی غیرواضح تھا۔ غیرملکی قبضے، نسلی تفریق اور عصیبت سے آزادی لوگوں کا ناقابل انتقال حق ہے۔ 'آئی سی جے' کی یہ رائے خاص طور پر ایسے وقت میں بین الاقوامی قانون کے احترام کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے جب نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی کنونشن کی مبینہ پامالیوں کا معاملہ بھی عدالت میں زیرسماعت ہے۔

Tweet URL

'آئی سی جے' نے 19 جولائی کو قرار دیا تھا کہ غزہ کی پٹی اور مغربی علاقے بشمول مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ، اس کی جانب سے بستیوں کی تعمیر، فلسطینی علاقوں کا اپنے ساتھ الحاق اور ان کے قدرتی وسائل کا استعمال غیرقانونی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 'آئی سی جے' سے یہ مشاورتی رائے طلب کی تھی۔

عدالت نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اپنے قبضے کو قانونی بنانے کے اقدامات نسلی تفریق اور عصبیت کی ممانعت کی نفی ہیں۔ اسرائیل قبضہ ختم کرے، فلسطینی علاقوں میں بنائی گئی بستیوں کا خاتمہ کرے اور متاثرہ فلسطینیوں کے نقصان کا مکمل ازالہ کرنے کے علاوہ انہیں اپنے علاقوں میں واپسی کے لیے سہولت فراہم کرے۔

عدالتی رائے پر عملدرآمد کا مطالبہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کی رائے غیرقانونی الحاق و آباد کاری، نسلی تفریق اور عصبیت کی ممانعت کے اصولوں کی توثیق کرتی ہے۔ اسے عدالت کے استقراریہ فیصلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور ناصرف اسرائیل بلکہ اس کے قبضے کی حمایت کرنے والے تمام ممالک کو بھی اس پر عمل کا پابند ہونا چاہیے۔

عدالت نے اس تصور کو رد کیا کہ فلسطینیوں کو حق خود ارادیت اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کے ذریعے ملنا چاہیے۔ یہ ایسی شرط ہے جس کے باعث فلسطینی تین دہائیوں سے تشدد اور اپنے گھروں اور املاک سے محرومی کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 20 سال پہلے اسی عدالت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔ تاہم اسرائیل سمیت متعدد ممالک نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ 19 جولائی کو عدالت کی رائے آنے کے بعد اسرائیل نے فلسطینی آبادی اور اس کے قدرتی وسائل پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

انہوں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ عدالت کی اس قانونی رائے اور اس کی جانب سے رواں سال دیے گئے دیگر فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہ دکھانا بند کرے کہ وہ قانون سے بالاتر ہے۔

اسرائیل پر پابندیوں کی تجویز

ماہرین کا کہنا ہے، ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی، سیاسی اور معاشی تعلقات پر فوری نظرثانی کریں جس میں کاروباری اور مالیاتی معاملات، پینشن فنڈ، تعلیم اور ٰخیرات سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔

انہوں نے اسرائیل کو اسلحے اور ایسی تمام تجارتی اشیا کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے جس سے فلسطینیوں کو نقصان ہو سکتا ہو۔ ماہرین نے اسرائیل کے خلاف مخصوص پابندیوں کی سفارش بھی کی ہے جن میں اس کے غیرقانونی قبضے اور نسلی بنیاد پر تفریق و عصبیت میں ملوث افراد اور اداروں کے اثاثوں کی ضبطی بھی شامل ہے۔

ماہرین نے ایسے افراد کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کے لیے بھی کہا ہے جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کیے جانے والے جرائم میں ملوث ہیں۔ اس میں خاص طور پر دہری شہریت والے لوگ شامل ہیں جو اسرائیل کی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں یا آبادکاروں کے تشدد میں شریک ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ عدالت کی رائے کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جانا چاہیے تاکہ حکومت کی ہر سطح پر اس سے مکمل آگاہی ہو اور سرکاری دستاویزات اور تعلیمی نظام میں بھی اس کی عکاسی ہوتی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو ایسے قوانین اور پالیسیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے جن کے تحت اسرائیل کے قبضہ اور اس کی نسلی عصبیت کی مخالفت کرنا قابل سزا جرم ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی نئی تشریح کے لیے اسرائیل کی دانستہ کوششوں کا مقابلہ کریں جو اپنے جرائم چھپانے اور تمام فلسطینیوں کے خلاف ممکنہ نسل کشی کو قانونی جواز دینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔

ماہرین و خصوصی اطلاع کار

غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔