انسانی کہانیاں عالمی تناظر

انرا بارے مجوزہ اسرائیلی قوانین عالمی اصولوں کے لیے خطرہ، یو این اہلکار

مشرق وسطیٰ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر۔
UN Photo/Eskinder Debebe
مشرق وسطیٰ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر۔

انرا بارے مجوزہ اسرائیلی قوانین عالمی اصولوں کے لیے خطرہ، یو این اہلکار

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اس کے امدادی ادارے (انرا) سے متعلق اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کردہ تین قوانین منظور ہو جانے کی صورت میں بین الاقوامی قانون اور کثیرفریقی اصولوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔

'انرا' کی نائب کمشنر جنرل انتونیا میری ڈی میو نے کہا ہے کہ یہ قوانین علاقے میں 'انرا' کے عملے اور جنرل اسمبلی کے اختیار کے لیے براہ راست خطرہ ہوں گے۔ پہلے قانون میں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں 'انرا' کی کارروائیوں پر پابندی کے لیے کہا گیا ہے۔ دوسرا قانون 'انرا' کو 1949 سے حاصل استحقاق اور استثنیٰ واپس لینے سے متعلق ہے جبکہ تیسرے قانون میں اسے 'دہشت گرد تنظیم' قرار دینے کو کہا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بات جمعہ کو سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطینی مسئلے پر منعقدہ اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ یہ اجلاس چین، روس اور الجزائر کی درخواست پر بلایا گیا جس میں غزہ کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔

نائب کمشنر جنرل نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات کرتے ہوئے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے ان تینوں قوانین پر بحث کی منظوری دے دی ہے اور آئندہ ہفتے ان پر رائے شماری ہو گی۔

امدادی سرگرمیوں کا نقصان

نائب کمشنر جنرل نے کہا کہ ان قوانین کو تین مراحل میں منظور کیا جانا ہے اور ان کے ذریعے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی کثیرفریقی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک بناوٹی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان قوانین سے صرف 'انرا' ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے پورے نظام پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ آئندہ مسلح تنازعات میں امدادی سرگرمیوں کے معاملے میں اسے معمول بننے نہیں دیا جا سکتا۔

'انرا' کی نائب کمشنر جنرل انتونیا میری ڈی میو ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
'انرا' کی نائب کمشنر جنرل انتونیا میری ڈی میو ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہی ہیں۔

'انرا' کے عملے کے لیے خطرات

انہوں نے کہا کہ 'انرا' کو ختم کرنے کے لیے منظم کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ اقوام متحدہ اور غیرسرکاری اداروں کے عملے کو اسرائیل میں داخلے کے لیے ویزے نہیں دیے جا رہے۔ 'انرا' کے کمشنر جنرل کے ویزے کی مدت ایک ماہ پہلے ختم ہو گئی تھی اور اس کی تاحال تجدید نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ کے عملے کو جو ویزے جاری کیے گئے ہیں ان کی مدت دو سے تین ماہ تک ہے اور انہیں حاصل کرنے کا عمل بہت مشکل اور طویل ہوتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ سوشل میڈیا پر 'انرا' کے بارے میں پھیلائی جانے والی گمراہ کن اور غلط اطلاعات بعض اوقات تشدد کی ترغیب کے مترادف ہوتی ہیں۔ اس سے خاص طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ادارے کے لیے کام کرنے والوں کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔

تین گزارشات

انتونیو میری ڈی میو نے کہا کہ امن عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا تعاون ضروری ہے اور اس ضمن میں تین درخواستیں بہت اہم ہیں:

پہلی یہ کہ، سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی کے لیے متواتر کوشش کرے تاکہ وہاں کے لوگوں اور خطے کو امن کی فضا میں سانس لینے کا موقع ملے۔ تمام یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے اور غزہ میں انسانی امداد اور تجارتی سامان کی ترسیل بڑھائی جائے۔

دوسری درخواست یہ ہے کہ 'انرا' کے اختیار کا تحفظ کیا جائے اور مسئلے کا سیاسی حل نکلنے تک اس کی جانب سے خدمات کی فراہمی جاری رہنی چاہیے۔ غزہ میں 'انرا' جیسا کام خطے کا کوئی اور ادارہ نہیں کر سکتا۔دنیا کے ان بدحال ترین لوگوں کی مدد کا یہ ضروری کام جاری رکھنے کی غرض سے ادارے کو سیاسی و مالی مدد کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ امید ہےکہ سلامتی کونسل ادارے پر کیے جانے والے قانونی اور دیگر حملوں کے خلاف یکجا ہو گی۔

انہوں نے تیسری اور آخری درخواست کے حوالے سے کہا کہ سات دہائیوں سے جاری اس تنازع کا پرامن حل نکالا جائے۔ غزہ کی جنگ جس قدر طوالت پکڑے گی اس مسئلے کے پرامن حل کا امکان اسی قدر معدوم ہوتا جائے گا۔ مسئلے کو پرامن طور سے حل کرنے کے نتیجے میں ہی فلسطینی پناہ گزینوں کے مصائب ختم ہوں گے۔

موت اور تباہی

مشرق وسطیٰ امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے نائب خصوصی رابطہ کار محمد ہادی نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی حالات تباہ کن صورت اختیار کر گئے ہیں۔ امدادی کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ جنگ اسی طرح جاری رہی تو مزید بڑے پیمانے پر موت اور تباہی پھیلے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ وسیع پیمانے پر موت اور تباہی دیکھ رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں خوف، بھوک، پیاس، بیماری، غیرانسانی سلوک، صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات کے فقدان اور متواتر بے گھری سے عبارت ہیں۔ علاقے میں قحط کا خطرہ برابر موجود ہے اور متعدی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

مشرق وسطیٰ امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے نائب خصوصی رابطہ کار محمد ہادی بھی ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
مشرق وسطیٰ امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے نائب خصوصی رابطہ کار محمد ہادی بھی ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

بچوں کے لیے تشویشناک حالات

انہوں نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ غزہ کے 625,000 بچوں کے لیے حالات خاص طور پر تشویشناک ہیں۔ یہ بچے گہرے صدمے کا شکار ہیں اور ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔

جنگ سے پہلے غزہ کے تقریباً نصف بچے 'انرا' کے سکولوں میں زیرتعلیم تھے لیکن اب یہ سکول بے گھروں کی پناہ گاہوں میں بدل گئے ہیں۔ اسرائیل کی فضائی بمباری میں ان سکولوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان میں سے آٹھ سکول گزشتہ ہفتے ہی حملوں کی زد میں آئے تھے۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے حملے سے قبل غزہ بھر میں ادارے کے 183 سکول کام کر رہے تھے۔

مہلک امراض کا پھیلاؤ

محمد ہادی کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہر جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں اور گندا پانی لوگوں کی خیمہ بستیوں میں بہہ رہا ہے۔ ایسے حالات میں مہلک متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سرطان، گردوں کی خرابی یا زیابیطس میں مبتلا لوگوں کو ضروری علاج معالجے تک رسائی نہیں ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مریضوں کو غزہ سے باہر علاج درکار ہے۔

ہر جگہ پھیلی تباہی اور موت کے درمیان امدادی ادارے اور کارکن ان بدحال لوگوں کو مدد پہنچانے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے موجودہ حالات میں ان کے لیے اپنی صلاحیتوں سے پوری طرح کام لینا ممکن نہیں رہا کیونکہ امدادی سرگرمیوں کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ امدادی کارکنوں اور مدد وصول کرنے والوں کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ امدادی قافلوں کو اپنی منزل تک محفوظ اور بلارکاوٹ رسائی درکار ہے۔ غزہ میں آنے والے امداد کی مقدار اور اس کی اقسام پر کوئی پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔