انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بیجنگ: فلسطینی دھڑوں میں معاہدے کا گوتیرش کی طرف سے خیرمقدم

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ فلسطینی دھڑوں میں اتحاد کے معاہدے پر عملدرآمد ہونا چاہیے (فائل فوٹو)۔
UN Photo/Jean Marc Ferré
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ فلسطینی دھڑوں میں اتحاد کے معاہدے پر عملدرآمد ہونا چاہیے (فائل فوٹو)۔

بیجنگ: فلسطینی دھڑوں میں معاہدے کا گوتیرش کی طرف سے خیرمقدم

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بیجنگ میں حماس اور فتح سمیت فلسطینی سیاسی دھڑوں میں طے پانے والے نئے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے فلسطینی اتحاد کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے نیویارک میں صحافیوں کو معمول کی بریفنگ میں بتایا ہے کہ فلسطینی دھڑوں کا طویل سیاسی مخاصمت کے بعد اکٹھے ہونا خوش آئند ہے۔

حماس 2007 میں فتح کو غزہ سے نکال باہر کرنے کے بعد علاقے میں حکومت کرتی آئی ہے۔ قبل ازیں اس نے عام انتخابات میں بھی فتح حاصل کی تھی۔ فتح مغربی کنارے میں حکومت کر رہی ہے اور دونوں دھڑوں میں لڑائی ختم کرانے کے لیے ماضی میں ہونے والی کوششیں کامیاب نہیں رہیں۔

چین کی سہولت سے طے پانے والے بیجنگ اعلامیے پر 14 فلسطینی گروہوں نے دستخط کیے ہیں۔ اس کے ساتھ فتح اور حماس کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں معاہدہ طے پانے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کے تحت دونوں دھڑے فلسطینی علاقوں پر مشترکہ حکومت قائم کریں گے۔ تاہم اس معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔

اتحاد کی اہمیت

ترجمان کے مطابق، سیکرٹری جنرل نے فلسطین کے تمام دھڑوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے ختم کریں اور بیجنگ میں کیے گئے وعدوں اور اعلامیے کی شرائط کو پورا کیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ اتحاد کی جانب تمام اقدامات کا خیرمقدم ہونا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ خطے میں امن و استحکام اور فلسطینیوں کے لیے حق خود ارادیت کا حصول یقینی بنانے کی غرض سے ان کا اتحاد بہت اہم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک آزاد، جمہوری، اسرائیل سے متصل، قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست کے لیے بھی اس کی خاص اہمیت ہے۔

سیکرٹری جنرل نے اس ضمن میں چین اور دیگر ممالک کی جانب سے کی جانے والی سفارتی کوششوں کو سراہا ہے۔

دو ریاستی حل

اقوام متحدہ اسرائیل۔فلسطین تنازعے کا جامع دو ریاستی حل نکالنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کے تحت دونوں ممالک ادارے کی قراردادوں اور بین الاقوام قانون کے تحت 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور سے رہیں گے جبکہ یروشلم دونوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو گا۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے ایسی فلسطینی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جس میں حماس کے نمائندے بھی شامل ہوں جبکہ اس کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم نہ کیا جائے۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک حماس کو سرکاری طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کو تباہ کرے گا جو کہ غزہ میں اس کی جنگ کا بنیادی مقصد ہے اور نہ تو علاقے کا قبضہ چھوڑے گا اور نہ ہی موجودہ فلسطینی اتھارٹی کو اس کا انتظام سنبھالنے دے گا۔