انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یو این چیف کا مشرق وسطیٰ میں تباہ کن جنگ کا خطرہ ٹالنے پر اصرار

اسرائیل پر ایران کے حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔
UN Photo
اسرائیل پر ایران کے حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔

یو این چیف کا مشرق وسطیٰ میں تباہ کن جنگ کا خطرہ ٹالنے پر اصرار

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کن جنگ کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ خطے کو تباہی سے بچانے کے لیے تمام ممالک کو تحمل سے کام لینا ہو گا۔

اسرائیل پر ایران کے ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر ایسے اقدام سے پرہیز کی ضرورت ہے جو خطے میں کسی بڑی جنگ کا سبب بن سکتا ہو۔

Tweet URL

یہ اجلاس اسرائیل کی درخواست پر بلایا گیا جس نے کونسل کو تحریری طور پر بتایا ہے کہ ایران نے اس پر 200 سے زیادہ ڈرون طیاروں، کروز اور بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا جو بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔

سیکرٹری جنرل نے مندوبین کو بتایا کہ ایران نے سلامتی کونسل کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل میں عسکری اہداف پر حملے کیے۔ اس کی یہ کارروائی یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارتی دفتر پر ہونے والے حملے کا جواب تھی۔

حملوں کی مذمت

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایران نے اپنی سرزمین سے اسرائیل کی جانب سینکڑوں ڈرون اور میزائل داغے جن میں سے بیشتر کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔ متعدد میزائل اسرائیل کی سرزمین پر بھی گرے جن سے ملک کے جنوبی علاقے میں ایک عسکری ٹھکانے کو نقصان پہنچا۔ 

سیکرٹری جنرل نے کونسل کو بتایا کہ ان حملوں میں چند افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 

انہوں نے ان حملوں کی ایک مرتبہ سختی سے مذمت کی اور تنازع کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے کہا۔ 

عالمی برادری کی ذمہ داری

انتونیو گوتیرش نے تمام فریقین کو کشیدگی بڑھانے سے باز رکھنے کے لیے عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری یاد دلائی۔ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی ممکن بنانا، تمام یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی اور انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی بھی ایسی ہی ذمہ داری تھی۔ 

یہی نہیں بلکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کو روکنا، لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر کشیدگی کا خاتمہ کرنا اور بحیرہ احمر میں جہازرانی کو دوبارہ محفوظ بنانا بھی عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امن کے لیے کام کرنا دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس وقت علاقائی و عالمی امن اور سلامتی خطرے میں ہے۔ نہ تو مشرق وسطیٰ اور نہ ہی دنیا مزید جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل سفیر گیلاد ایردان سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل سفیر گیلاد ایردان سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

دنیا ایران سے بازپرس کرے: اسرائیل

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل سفیر گیلاد ایردان نے کہا کہ ہفتے کی رات کو ان کے ملک پر حملہ ایران، لبنان، شام، یمن اور عراق سے کیا گیا۔

اس موقع پر دنیا نے ایران کے جس طرز عمل کا مشاہدہ کیا اس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب انتباہ کو نظرانداز کیا جائے تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل دنیا کو ایران اور اس کے آلہ کاروں سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس موقع پر انہوں نے ایک ویڈیو دکھائی جس میں نظر آنے والے مناظر کو انہوں نے مسجد اقصیٰ (ٹیمپل ماؤنٹ) پر حملہ قرار دیا اور کونسل سے سوال کیا کہ اس نے دنیا کو ایران سے تحفظ دینے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں۔

اسرائیل کے سفیر کا کہنا تھا کہ ایران کے اقدامات بہت پہلے سے واضح تھے کہ وہ دنیا بھر میں اپنے دہشت گرد آلہ کاروں کو مسلح کرنا، انہیں مالی وسائل اور تربیت فراہم کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اب اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں رہی۔ ایران نے اپنی سرزمین سے اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور ان کا ملک اس کے آلہ کاروں سے گھرا ہوا ہے جو اس پر حملہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی مذمت کرنا اور یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اسے علم ہو کہ دنیا اب اس کی کارروائیوں پر خاموش تماشائی بنی نہیں رہے گی۔ اس حملے نے ہر سرخ لکیر عبور کر لی ہے اور اسرائیل جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل سفیر امیر سعید ایروانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے مزید عسکری اشتعال انگیزی کی صورت میں ایران اپنے لوگوں، قومی سلامتی اور اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔
UN Photo
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل سفیر امیر سعید ایروانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے مزید عسکری اشتعال انگیزی کی صورت میں ایران اپنے لوگوں، قومی سلامتی اور اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

دفاع کا حق استعمال کرتے رہیں گے: ایران

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل سفیر امیر سعید ایروانی نے اپنے خطاب میں اسرائیل کے دعووں کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا جواب دینا ضروری نہیں۔ ان کے ملک کا متواتر یہی موقف رہا ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی یا جنگ نہیں چاہتا۔ اس کی حالیہ کارروائی ضروری اور متناسب تھی۔ اس میں شہریوں کے نقصان سے بچتے ہوئے اور کشیدگی میں اضافے کا امکان کم از کم رکھ کر صرف عسکری اہداف کو بالاحتیاط نشانہ بنایا گیا۔ 

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت کونسل کے بعض ارکان نے حقیقت سے نظریں چرائیں اور حالیہ صورتحال کی بنیادی وجوہات کو نظرانداز کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ متذکرہ تینوں ممالک کا طرزعمل منافقانہ ہے جنہوں نے خطے میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکامی کو زیرغور لائے بغیر ایران پر الزام تراشی کی۔

ایران کے سفیر نے کہا کہ ان ممالک نے ایران کے اپنے دفاع کے حق سے انکار کے لیے جھوٹ اور غلط بیانی کا سہارا لیا۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم پر کونسل کی بے عملی نے اسے قوانین کی بلاروک و ٹوک پامالی کی شہ دی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چھ ماہ تک غزہ پر سلامتی کونسل کی قرارداد کو منظور ہونے سے روکے رکھا تاکہ اسرائیل کا احتساب نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مزید عسکری اشتعال انگیزی کی صورت میں ایران اپنے لوگوں، قومی سلامتی اور اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا اور جب بھی ضرورت ہوئی اپنے اس حق کو استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرڈ وڈ نے کہا کہ امریکہ کشیدگی نہیں چاہتا۔
UN Photo
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرڈ وڈ نے کہا کہ امریکہ کشیدگی نہیں چاہتا۔

سلامتی کونسل ایران سے بازپرس کرے: امریکہ

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل سفیر رابرڈ وڈ نے ایران کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل میں بڑے پیمانے پر تباہی اور موت پھیلانا چاہتا ہے۔ اس کے اقدامات سے ناصرف اسرائیل بلکہ خطے میں اردن اور عراق سمیت دیگر ممالک کے لوگوں کو بھی خطرہ ہے۔ سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران سے اس کے افعال پر بازپرس کرے۔ 

امریکی سفیر نے کہا کہ ایران طویل عرصہ سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو کھلے عام پامال کرتا آیا ہے جس میں اس کے پاسداران انقلاب کا کردار نمایاں ہے۔ اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملوں میں ایران کا ہاتھ بھی تھا کیونکہ اس نے حماس کے عسکری ونگ کو مالی مدد اور تربیت فراہم کی تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں امریکہ دیگر رکن ممالک کے ساتھ مشاورت کر کے ایران کو اقوام متحدہ میں جوابدہ بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے گا۔ امریکہ کشیدگی نہیں چاہتا اور اس کے اقدامات خالصتاً دفاعی نوعیت کے ہیں۔

اقوام متحدہ میں شام کے مستقل سفیر قصی الضحاک نے کہا کہ شام نے اقوام متحدہ کو اسرائیل کے ان جرائم کے بارے میں خبردار کیا اور انہیں روکنے کے لیے کہا تھا۔
UN Photo/Eskinder Debebe
اقوام متحدہ میں شام کے مستقل سفیر قصی الضحاک نے کہا کہ شام نے اقوام متحدہ کو اسرائیل کے ان جرائم کے بارے میں خبردار کیا اور انہیں روکنے کے لیے کہا تھا۔

منافقت اور دہرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے: شام

اقوام متحدہ میں شام کے مستقل سفیر قصی الضحاک نے کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہفتے کو مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہوا وہ اسرائیل کی جانب سے شام اور خطے بھر میں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی متواتر پامالیوں کا نتیجہ تھا۔ امریکہ کی حمایت سے اسرائیل کو ان افعال کی کھلی چھوٹ حاصل رہی اور اس کے قابض حکام سالہا سال سے اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ وہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بالاتر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شام نے اقوام متحدہ کو اسرائیل کے ان جرائم کے بارے میں خبردار کیا اور انہیں روکنے کے لیے کہا تھا۔ تاہم ہر مرتبہ چند ممالک اسے محاسبے سے تحفظ دیتے رہے۔ افسوسناک طور سے اب بھی ان ممالک کا یہی طرز عمل برقرار ہے۔ 

شام خطے میں مزید حملوں اور کشیدگی کے لیے امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ انہیں منافقت اور دہرے معیارات کو ترک کر کے خطے اور وہاں کے لوگوں کے خلاف اپنی تباہ کن پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنا ہو گا اور اپنے افعال کی اصلاح کرنا ہو گی۔

شام کے سفیر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کا قبضہ ختم کرانے میں مدد دے اور غزہ کے لوگوں کو دانستہ طور پر بھوکا مارنے کے خلاف فوری اقدامات اٹھائے۔ غزہ میں انسانی امداد کی مکمل رسائی یقینی بنائی جائے اور شام میں غیرقانونی طور پر موجود امریکی فوج کو واپس بلایا جائے۔