افغانستان: سرعام کوڑے مارنے اور پھانسیاں دینے پر یو این کو تشویش
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے افغانستان کے طالبان حکام پر زور دیا ہے کہ کھیل کے میدانوں میں فائرنگ کے ذریعے سرعام سزائے موت دینا بند کی جائے۔
'او ایچ سی ایچ آر' کے ترجمان جیریمی لارنس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان میں کھیل کے میدانوں میں تین افراد کو سرعام سزائے موت دی گئی۔ ایسے اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے مترادف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں ناجائز اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت محفوظ زندگی کے حق سے متضاد ہیں جبکہ افغانستان نے بھی اس کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔
سزائے موت کی معطلی کا مطالبہ
سرعام سزائے موت دیے جانے کے یہ واقعات غزنی اور شبرغان میں پیش آئے۔ اس موقع پر عدالت بھی لگائی گئی اور حکام کے علاوہ عام لوگوں کی بڑی تعداد بھی موقع پر موجود تھی۔ اطلاعات کے مطابق سزا پانے والوں پر کئی مرتبہ فائرنگ کی گئی۔
اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد طالبان کی عدالت کے فیصلوں اور حکام کی جانب سے ان کی منظوری کے بعد پانچ افراد کو سرعام سزائے موت دی جا چکی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ادارہ افغان حکام پر زور دیتا ہے کہ وہ مزید لوگوں کی ایسی سزا پر عملدرآمد کو فوری معطل کریں اور سزائے موت کا سرے سے خاتمہ کرنے کے لیے بلاتاخیر اقدامات اٹھائیں۔
ظالمانہ اور غیرانسانی سزائیں
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ طالبان حکام کی جانب سے جسمانی سزاؤں پر سرعام عملدرآمد کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ایسی سزاؤں کو بھی ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے مترادف قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون ایسی سزاؤں کی ممانعت کرتا ہے اور ان کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے انہوں نے اتوار کو لغمان میں پیش آنے والے ایک واقعے کا حوالہ دیا جس میں 12 سالہ لڑکے اور ایک مرد کو بداخلاقی کے جرم میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ اسی روز شمال مغربی صوبہ بلخ میں ایک خاتون اور مرد کو گھر سے بھاگنے اور زنا کے جرم میں 35 کوڑوں کی سزا دی گئی۔
ترجمان نے کہا ہے کہ 'او ایچ سی ایچ آر' طالبان حکام پر زور دیتا ہے کہ وہ منصفانہ قانونی کارروائی یقینی بنائیں اور ہر طرح کے الزامات کا سامنا کرنے والے لوگوں کو وکلا تک رسائی دیں۔