غزہ بحران: بیشتر ہسپتال بند اور ضروریات زندگی نایاب
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں نصف سے زیادہ طبی مراکز غیرفعال ہو چکے ہیں جبکہ بارشوں اور سردی کے موسم کی آمد پر علاقے میں بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ادارے کے نمائندے ڈاکٹر رچرڈ پیپرکورن نے کہا ہے کہ غزہ میں طبی نظام تباہ ہونے کو ہے۔ ایندھن کی غیرموجودگی میں جزوی طور پر کام کرنے والے باقی ماندہ ہسپتال لوگوں کی بے پایاں ضروریات سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔
جینیوا سے صحافیوں کے ساتھ زوم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ علاقے میں 72 میں سے 47 بنیادی مراکز صحت کام نہیں کر رہے جبکہ قریباً 75 فیصد ہسپتال (35 تا 36) غیرفعال ہو گئے ہیں۔
یہ صورت حال ایسے وقت سامنے آئی ہے جب فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے 'انرا' نے بتایا ہے کہ ایندھن نہ ہونے کے باعث علاقے میں مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔ ان حالات میں امدادی قافلوں کی نقل و حرکت اور ان کے ساتھ روابط بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔
امدادی کام معطل
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (او سی ایچ اے) نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں بڑے پیمانے پر بمباری اور لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ 15 نومبر کو غزہ شہر کے علاقے الصابرہ میں احیاء السنۃ مسجد پر حملے میں 50 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
'او سی ایچ اے' نے الشفا ہسپتال پر اسرائیلی فوج کی کارروائی اور اس کے متعدد حصوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ ہسپتال کے ڈائریکٹر کا حوالہ دیتے ہوئے ادارے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی میں ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ سمیت ہسپتال کا جنوبی حصہ متاثر ہوا ہے۔ فوج نے ہسپتال کے احاطے سے کئی لاشیں بھی اٹھائی ہیں۔
ڈاکٹر پیپرکون نے بتایا کہ حالیہ تنازع شروع ہونے سے پہلے غزہ کے طبی مراکز میں مجموعی طور پر 3,500 بستر دستیاب تھے۔ اس وقت ان میں سے 1,400 ہی میسر ہیں جبکہ ضروریات پانچ ہزار سے زیادہ بستروں کا تقاضا کرتی ہیں۔ غزہ شہر میں ایندھن کی غیرموجودگی میں ایمبولینس گاڑیوں اور امدادی ٹیموں کی کارروائیاں بھی معطل ہو گئی ہیں۔
807,000 سے زیادہ فلسطینی تاحال غزہ کے شمالی علاقے میں موجود ہیں جبکہ ایک تہائی آبادی (تقریباً 400,000 افراد) جنوبی علاقے کی جانب نقل مکانی کر چکی ہے۔شمالی علاقے میں ہزاروں لوگ سکولوں، ہسپتالوں اور دوسروں کے گھروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بڑھتی ہوئی ضروریات
'ڈبلیو ایچ او' کو علاقے میں بیماریوں کے پھیلاؤ پر بھی شدید تشویش ہے کیونکہ بارشوں اور سردی کا موسم آ چکا ہے۔ پناہ گاہوں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کی موجودگی اور غزہ بھر میں پانی و نکاسی آب کی سہولتوں میں کمی کے باعث بیماریوں کی ایک سے دوسرے فرد کو منتقلی کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
پیپرکورن غزہ کی وزارت صحت، انرا اور ڈبلیو ایچ او کی فراہم کردہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 71,224 افراد میں سانس کی شدید بیماریوں، 44,202 میں اسہال (ان میں پانچ سال سے کم عمر کے 22,554 بچے بھی شامل ہیں)، 808 میں چیچک، 14,195 سے زیادہ لوگوں میں جلدی بیماریوں اور 10,952 افراد میں خارش اور جوؤں سے پیدا ہونے والی انفیکشن کی تشخیص ہوئی ہے۔

پانی کا ہتھیار
انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ غیرجانبدار ماہر نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بند کرے۔
پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کے امور پر اقوام متحدہ کے ماہر پیڈرو اروجو اگوڈو نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو صاف پانی کی ضرورت ہے۔ زیرمحاصرہ علاقوں میں پانی صاف کرنے کے پلانٹ بلاتاخیر بحال کرنا ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو روکنا بین الاقوامی قانون کی کھلی پامالی ہے۔ اس سے علاقے کی بہت بڑی آبادی کی پیاس اور آلودہ پانی سے لاحق ہونے والی بیماریوں سے ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔