انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تپ دق کے مکمل خاتمے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت

گزشتہ سال دنیا بھر میں 75 لاکھ افراد میں تپ دق کی تصدیق ہوئی۔
UN Photo/Loey Felipe
گزشتہ سال دنیا بھر میں 75 لاکھ افراد میں تپ دق کی تصدیق ہوئی۔

تپ دق کے مکمل خاتمے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کووڈ۔19 کے باعث تپ دق (ٹی بی) کے خلاف اقدامات بحال ہو رہے ہیں تاہم بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے مزید کوششیں درکار ہوں گی۔

تپ دق کے بارے میں 'ڈبلیو ایچ او' کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں 75 لاکھ لوگوں میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی جو 1995 میں ادارے کی جانب سے اس کے پھیلاؤ کی نگرانی شروع ہونے کے بعد کسی ایک سال میں سامنے آنے والے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

Tweet URL

گزشتہ سال دنیا بھر میں اندازاً ایک کروڑ چھ لاکھ لوگ تپ دق سے بیمار ہوئے جبکہ 2021 میں یہ تعداد ایک کروڑ تین لاکھ تھی۔

اس مرض کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت کا تعلق جنوبی ایشیا، افریقہ اور مغربی الکاہل سے ہے اور یہ دنیا بھر میں تپ دق کے مریضوں کی مجموعی تعداد کا 90 فیصد ہیں۔ باقی ماندہ مریضوں کا تعلق مشرقی بحیرہ روم، براعظم ہائے امریکہ اور یورپ سے ہے۔

2022 میں ایچ آئی وی کے مریضوں سمیت تپ دق سے ہونے والی مجموعی اموات 13 لاکھ تھیں، جبکہ اس سے پچھلے سال 14 لاکھ اموات ریکارڈ کی گئیں۔

کووڈ-19 کے باعث طبی خدمات میں پیدا ہونے والے خلل کا نتیجہ 2020 اور 2022 کے درمیان ٹی بی سے تقریباً پانچ لاکھ مزید اموات کی صورت میں نکلا جبکہ ایچ آئی وی کے مریضوں میں اموات کا بڑا سبب بھی تپ دق تھی۔

تپ دق ایک متعدی بیماری ہے جو پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ جراثیم سے پیدا ہوتی ہے اور متاثرہ لوگوں کے کھانسنے، چھینکنے یا تھوکنے سے اس کے جراثیم ہوا میں پھیل کر دوسرے لوگوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ تپ دق کی روک تھام ممکن ہے اور یہ قابل علاج مرض ہے۔ 

طبی خدمات تک رسائی

رپورٹ میں 192 ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ بہت سی جگہوں پر گزشتہ برس بڑی تعداد میں تپ دق کے مریض سامنے آنے کا سبب طبی خدمات تک رسائی اور ان کی فراہمی کے عمل کی بہتر طور سے بحالی ہے۔ 

2020 اور 2021 کے دوران دنیا بھر میں اس بیماری کے نئے مریضوں کی تعداد میں جو کمی ہوئی اس میں 60 فیصد حصہ انڈیا، انڈونیشیا اور فلپائن کا تھا۔ گزشتہ برس ان تینوں ممالک نے تپ دق کے خلاف اقدامات کو 2019 کی سطح پر سو فیصد بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے بتایا ہے کہ تپ دق ہزاروں سال تک اموات کا بڑا سبب رہی ہے۔ لوگ یہ جانے بغیر اس بیماری کا شکار ہوتے اور اس سے ہلاک ہوتے رہے کہ یہ مرض کیا ہے، کیوں پھیلتا ہے اور اسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ 

تپ دق کی داستان کا آخری باب

تپ دق کی ادویات کے خلاف مزاحم قسم (ایم ڈی آر۔ٹی بی) بدستور صحت عامہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ گزشتہ برس اندازاً 410,000 لوگوں میں تپ دق کی یہ قسم یا ایک اور قسم کی تشخیص ہوئی جس پر جراثیم کش دوا ریفمپسن (ایم ڈی آر/آر آر۔ٹی بی) بے اثر رہتی ہے، تاہم صرف چالیس فیصد مریضوں کو ہی علاج تک رسائی رہی۔ 

'ڈبلیو ایچ او' کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹی بی کی تشخیص کے نئے طریقوں، ادویات اور ویکسین کی تیاری میں کچھ پیش رفت سامنے آئی ہے لیکن ان شعبوں میں مجموعی سرمایہ کاری کی کمی کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ تپ دق کا مقابلہ کرنے کی عالمگیر کوششوں کے نتیجے میں 2000 کے بعد 75 ملین زندگیوں کو تحفظ ملا ہے تاہم ان اقدامات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ 2022 میں کووڈ۔19 کے بعد یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث بننے والی دوسری بڑی بیماری رہی۔

گزشتہ برس تپ دق کے خلاف اقدامات میں نمایاں بحالی دیکھے جانے کے باوجود اس بیماری کے خاتمے سے متعلق 2018 میں طے کیے گئے عالمی اہداف کے حصول کی جانب پیش رفت ناکافی تھی۔ کووڈ۔19 وبا کے باعث طبی نظام میں آنے والے خلل اور دنیا میں جاری تنازعات اس کی بڑی وجوہات تھیں۔

مثال کے طور پر 2015 سے 2022 کے مابین ٹی بی سے متعلقہ اموات میں آنے والی مجموعی کمی 19 فیصد رہی جو کہ 2025 تک اس بیماری کے پھیلاو میں 75 فیصد کمی لانے کے ہدف سے کہیں کم ہے۔ 

ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ آج انسان کے پاس تپ دق کے بارے میں ایسا علم اور ذرائع ہیں جن کا پہلے تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ اس بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے آج سیاسی ارادہ بھی موجود ہے اور ایسا موقع بھی میسر ہے جو انسانی تاریخ میں پہلے کسی نسل کو دستیاب نہیں تھا۔ یہ ٹی بی کی داستان میں آخری باب تحریر کرنے کا موقع ہے۔

ممبئی کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر ٹی بی کے مریض کا معائنہ کر رہا ہے۔
© WHO/David Rochkind
ممبئی کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر ٹی بی کے مریض کا معائنہ کر رہا ہے۔

وعدوں سے عمل تک 

ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے دوران ایک اجلاس میں عالمی برادری نے 2018 میں کیے گئے وعدوں اور اہداف کو پورا کرنے کا عہد کیا اور 2027 تک نئے اہداف مقرر کیے۔

نئے اہداف میں تپ دق کی روک تھام اور اس کے علاج کے ضرورت مند 90 فیصد لوگوں تک رسائی حاصل کرنا، بیماری کی تشخیص کے ترجیحی طریقے کے طور پر ڈبلیو ایچ او کا سفارش کردہ تیزرفتار طبی معائنہ کروانا، تمام مریضوں کو طبی و سماجی فوائد کے پیکیج کی فراہمی، کم از کم ایک نئی، محفوط اور موثر ویکسین کی دستیابی یقینی بنانا اور بیماری پر قابو پانے کے لیے درکار مالی وسائل کی کمی کو دور کرنا شامل ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ تپ دق کی عالمگیر وبا کا خاتمہ ان وعدوں کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔