انسانی کہانیاں عالمی تناظر

جنرل اسمبلی: کیوبا پر امریکی پابندیوں کے خاتمے کی قرارداد منظور

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیوبا پر امریکہ کی طرف سے لگائی گئی معاشی، مالی، اور تجارتی پابندیوں کے خاتمے کے سوال پر پر رائے شماری ہوئی۔
UN Photo/Evan Schneider
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیوبا پر امریکہ کی طرف سے لگائی گئی معاشی، مالی، اور تجارتی پابندیوں کے خاتمے کے سوال پر پر رائے شماری ہوئی۔

جنرل اسمبلی: کیوبا پر امریکی پابندیوں کے خاتمے کی قرارداد منظور

معاشی ترقی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کیوبا کے خلاف امریکہ کی معاشی و تجارتی پابندیوں کے خاتمے کے حق میں قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی ہے۔

"امریکہ کی جانب سے کیوبا کے خلاف نافذ کردہ معاشی، تجارتی اور مالیاتی پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت" کے عنوان سے پیش کی جانے والی اس سالانہ قرارداد کے حق میں 187 ارکان نے ووٹ دیا۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ یوکرین غیرحاضر رہا۔

 اسمبلی نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ 1992 میں منظور کردہ اس کی قراردادوں (قرارداد 19/47) کے باوجود "کیوبا کے خلاف معاشی، تجارتی اور مالیاتی پابندی تاحال برقرار ہے" اور "دیگر ممالک میں رہنے والے کیوبا کے لوگوں اور شہریوں پر ایسے اقدامات کے مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔"

کیوبا کے خلاف امریکہ نے یہ پابندیاں پہلی مرتبہ 1960 میں عائد کی تھیں۔ 2015 اور 2016 میں امریکہ کے صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے اس پابندی کے اطلاق میں نرمی کی جبکہ 2017 میں امریکہ کی حکومت نے ان کے نفاذ کو دوبارہ مضبوط کیا تھا۔

بین الاقوامی تجارتی قوانین کی پامالی

اس موقع پر کیوبا کے وزیر خارجہ برونو راڈریگز پاریلا نے قرارداد کو متعارف کراتے ہوئے کہا کہ 60 سال سے زیادہ عرصہ سے عائد پابندیاں کیوبا کے تمام مردوخواتین کے حقوق کی پامالی ہیں۔ 

ان پابندیوں کے باعث خاندانوں کو اشیا کی قلت کا سامنا ہے، خریداری کے مراکز پر لوگوں کی طویل قطاریں دکھائی دیتی ہیں، اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور حکومت کو اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے باعث زرعی شعبے کے پاس مویشیوں کے لیے چارہ خریدنے، صنعتوں کو مشینری کے حصول اور غذائی پیداوار کے لیے درکار دیگر ضروری چیزوں کا اہتمام کرنے میں دشواری ہے۔ غذائی اشیا پر پابندیوں میں نرمی کے باوجود امریکہ بین الاقوامی تجارت کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ 

جنرل اسمبلی نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے تحدیدی قوانین اور اقدامات لاگو کرنے اور ان کے نفاذ سے پرہیز کریں۔

کیوبا کے وزیر خارجہ برونو راڈریگز پاریلا نےجنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے خطاب کر رہے ہیں۔
UN Photo/Evan Schneider
کیوبا کے وزیر خارجہ برونو راڈریگز پاریلا نےجنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرتے ہوئے خطاب کر رہے ہیں۔

'کیوبا کے خلاف معاشی جنگ'

وزیر خارجہ نے کہا کیوبا امریکہ کے لیے کسی طور خطرہ نہیں تھا اور ایک چھوٹے سے ملک کا دہائیوں تک معاشی جنگ کا سامنا کرنا ناقابل قبول ہے۔ اس طرح "غیرقانونی، ظالمانہ اور غیرانسانی پالیسی" کے ذریعے پورا ملک ترقی کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی 80 فیصد آبادی امریکہ کی نقصان دہ پابندیوں کے بغیر زندگی سے آشنا ہی نہیں ہے۔ یہ امن کے دور میں معاشی جنگ کا اقدام ہے اور یہ بے انتظامی پیدا کرنے اور دستوری نظم کو تباہ کرنے کی کوشش جیسے حالات ہیں۔ 

وزیر خارجہ نے فلسطینی لوگوں کے لیے کیوبا کی جانب سے تعاون اور یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زمین پر غیرقانونی قبضہ ہے اور ان لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بمباری کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے وحشیانہ اقدامات کو بند ہونا چاہیے۔

امریکہ کے نمائندے پال فومزبی نے کیوبا پر لگی پابندیوں پر اپنے ملک کا مؤقف بیان کیا۔
United Nations
امریکہ کے نمائندے پال فومزبی نے کیوبا پر لگی پابندیوں پر اپنے ملک کا مؤقف بیان کیا۔

امریکہ کا موقف

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے نے قرارداد پر اپنے مخالفانہ ووٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ثابت قدمی سے کیوبا کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ "ہم کیوبا کے لوگوں کی ایسے مستقبل کے لیے جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جس میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام ہو۔ یہ پابندیاں کیوبا کو جمہوریت، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ کی جانب بڑھنے پر زور دینے کے لیے امریکہ کی وسیع تر کوشش میں ایک ذریعے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ امریکہ کو کیوبا کے لوگوں کو درپیش مسائل کا احساس ہے اور خوراک، ادویات اور دیگر اشیا کو ان پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔" 

انہوں نے امریکہ کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے جنرل اسمبلی پر زور دیا کہ وہ کیوبا کی حکومت کو انسانی حقوق سے متعلق اس کی ذمہ داریاں یاد دلائے اور کیوبا کے لوگوں کی اپنا مستقبل خود طے کرنے کی خواہشات پر توجہ دے۔