جی77 اور چین برابری پر مبنی کثیر فریقی نظام کو بڑھاوا دیں : گوتیرش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ترقی پذیر ممالک کے گروپ آف 77 (جی77) اور چین سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسی دنیا کے لیے کام کریں جس میں سبھی کو یکساں مواقع میسر ہوں۔
کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں گروپ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ممالک طویل عرصہ سے کثیرفریقی نظام کے داعی رہے ہیں اور توقع ہے کہ گروپ کے ارکان دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، اپنی طاقت سے کام لیں گے اور جدوجہد کریں گے۔
سیکرٹری جنرل نے اجلاس کے شرکا سے کہا کہ وہ ایسے نظام کی حمایت کریں جس کی بنیاد مساوات پر ہو، جو ممالک کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور بے اعتنائی کا ازالہ کرنے کے لیے تیار ہو اور جو محض مراعات یافتگان کو ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کو فائدہ پہنچا سکتا ہو۔
ترقی پذیر ممالک کی مایوسی
انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان ممالک نے حالیہ دہائیوں میں لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے تاہم اب انہیں بڑھتی ہوئی غربت اور بھوک، آسمان سے باتی کرتی قیمتوں، قرضوں کے بوجھ اور تیزی سے بڑھتی موسمیاتی تباہی جیسے بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے اجلاس میں شریک رہنماؤں سے کہا کہ عالمگیر نظام اور طریقہ ہائے کار نے ان کے ممالک کو فائدہ نہیں دیا اور اس کا نتیجہ واضح ہے کہ دنیا ترقی پذیر ممالک کو مایوس کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تبدیلی قومی سطح پر اچھی حکمرانی یقینی بنانے، وسائل اکٹھے کرنے اور پائیدار ترقی کو ترجیح دینے کے اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اس قومی ذمہ داری کا احترام بھی کرنا ہو گا۔
سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع
سیکرٹری جنرل نے ایسے وقت میں مضبوط و موثر کثیرفریقی اداروں کو قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا جب دنیا کثیر قطبی ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے موجودہ ادارے خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک اس وقت قائم کیے گئے جب بہت سے ترقی پذیر ممالک نوآبادیاتی حکمرانی کے زیراثر تھے اور انہیں اپنے معاملات پر اپنی آواز اٹھانے کا موقع نہ مل سکا۔
انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع سے متعلق اس کانفرنس کا موضوع یکجہتی کو فروغ دے سکتا ہے، مشترکہ مسائل کو حل کر سکتا ہے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کےحصول میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے کووڈ۔19 ویکسین اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کے معاملے میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین پائی جانے والی عدم مساوات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت یہ چیزیں عدم مساوات کو بڑھا رہی ہیں اور تقسیم کو گہرا کر رہی ہیں۔
انتونیو گوتیرش نے مزید کہا کہ مالیات بھی ایسا شعبہ ہے جو عالمی سطح پر ہنگامی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ وبا کے طویل مدتی اثرات، رہن سہن کے اخراجات میں اضافے کے بحران اور شدید موسمیاتی اثرات کے باعث بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لیے اپنے قرضوں کی ادائیگی ممکن نہیں رہی۔
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل کی فراہمی
سیکرٹری جنرل نے کہ دنیا کو مالیاتی انصاف کی طرح موسمیاتی انصاف قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ وعدے کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر مہیا کریں، موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل میں 2025 تک دو گنا اضافہ کریں اور گرین کلائمیٹ فنڈ میں مزید سرمایہ مہیا کریں۔
انتونیو گوتیرش نے امید ظاہر کی کہ آئندہ ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقد ہونے والی موسمیاتی عزائم سے متعلق کانفرنس اس ضمن میں حقیقی پیش رفت کو ممکن بنائے گی۔
انہوں نے رواں سال نومبر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس' کاپ 28' میں شرکت کرنے والے ممالک سے کہا کہ وہ نقصان اور تباہی کے ازالے سے متعلق فنڈ کو فعال کریں جس کی جی77 اور چین نے وکالت کی ہے۔
منصفانہ مستقبل
سیکرٹری جنرل نے اپنی تقریر میں بتایا کہ انہوں نے عالمی مالیاتی ڈھانچے کو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے حوالے سے مزید نمائندہ اور حساس بنانے کے اقدامات تجویز کیے ہیں۔
انہوں ںے ایس ڈی جی پر پیش رفت تیز کرنے کا اقدام بھی تجویز کیا جس کے تحت ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی اور موسمیاتی اقدامات کے لیے سستے اور طویل مدتی مالی وسائل کے طور پر سالانہ 500 بلین ڈالر مہیا کیے جائیں گے۔
سیکرٹری جنرل نے آئندہ ہفتے ایس ڈی جی کانفرنس بلائی ہے اور اسی سے متعلقہ 'مستقبل کی کانفرنس' آئندہ برس منعقد ہو گی۔
انہوں ںے اجلاس کے شرکا سے کہا کہ یہ کانفرنسیں بین الاقوامی نظام اور اداروں کی تشکیل نو کا حقیقی موقع ہوں گی تاکہ انہیں بعداز جنگ عظیم دوم کے بجائے دورِ حاضر کی حقیقتوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
اقوام متحدہ نے عالمی ڈیجیٹل معاہدہ بھی تیار کیا ہے جس کا مقصد ڈیجیٹل معیشت کی جانب منصفانہ منتقلی یقینی بنانا ہے تاکہ نئی ٹیکنالوجی کے دور میں سبھی کو یکساں فوائد حاصل ہو سکیں۔
دنیا بھر کے ممالک مستقبل کی کانفرنس سے قبل اس معاہدے پر گفت و شنید کریں گے اور سیکرٹری جنرل نے جی 77 اور چین پر زور دیا کہ وہ اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں نئے قوانین محض دولت مند اور مراعات یافتہ ممالک کے ہاتھوں ہی تحریر نہیں ہونے چاہئیں۔