ترقیاتی اہداف: ترقی پذیر ممالک کو 4 ٹریلین ڈالر کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا نے ترقی پذیر ممالک کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے سرمایہ کاری میں 2 ٹریلین ڈالر سالانہ کی کمی کو پورا کرنے میں مدد نہ دی تو ماحول دوست مستقبل ناقابل رسائی رہے گا۔
انکٹاڈ کی نئی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی کے لیے سرمایہ کاری میں دراصل 4 ٹریلین ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔
ادارے کی سیکرٹری جنرل ربیکا گرینسپین نے کہا ہے کہ دنیا نے 2030 تک اپنے موسمیاتی اہداف حاصل کرنا ہیں تو ترقی پزیر ممالک میں قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے مادی معاونت میں نمایاں اضافہ کرنا بہت ضروری ہے۔
قابل تجدید توانائی اور غریب ممالک
تقریباً آٹھ سال پہلے پیرس معاہدے کی منظوری کے بعد قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری میں تقریباً تین گنا اضافہ ہو گیا ہے تاہم غریب ترین ممالک اس شعبے میں تاحال بڑی حد تک پسماندہ ہیں۔
گرینسپین نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے 2015 میں اس تاریخی معاہدے کی منظوری کے بعد 30 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک میں 10 میگا واٹ تک قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کے کسی ایک منصوبے کے لئے بھی بین الاقوامی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔
انکٹاڈ کے مطابق 2022 کے دوران ترقی پذیر ممالک میں ماحول دوست توانائی میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 544 بلین ڈالر تک رہی جو کہ ضرورت سے بہت کم ہے۔
مالی معاونت میں سست روی
ادارے کی رپورٹ میں بعض اچھی خبریں یہ ہیں کہ سب سے بڑے 100 کثیر الملکی کاروباری اداروں میں توانائی سے متعلق کمپنیاں تیزی سے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقل ہو رہی ہیں اور سالانہ 15 بلین ڈالر کی شرح سے معدنی ایندھن کے اثاثوں کو ختم کر رہی ہیں۔
تاہم رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2022 میں قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری کی مجموعی رفتار سست رہی کیونکہ بین الاقوامی سطح پر بیرون ملک شروع کیے جانے والے منصوبوں میں کمی آئی۔
انکٹاڈ نے بتایا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں توانائی، پانی اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں پائیدار ترقی سے متعلق اہداف (ایس ڈی جی) سے متعلق سرمایہ کاری میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی۔
غیرملکی سرمایہ کاری میں مسائل
رپورٹ کے مطابق براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ 2022 میں عالمی سطح پر یہ سرمایہ کاری 22 فیصد کمی کےساتھ 1.3 ٹریلین ڈالر تک رہی۔ کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں ایف ڈی آئی میں یہ کمی 16 فیصد تک ریکارڈ کی گئی جن میں سے بیشتر کا تعلق افریقہ سے ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین میں جنگ، خوراک اور توانائی کی بلند قیمتیں اور قرضوں کے دباؤ جیسے متراکب بحران اس سست روی کا بنیادی سبب ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ 2023 میں بھی یہ عوامل موجود رہیں گے اس لیے متوقع طور پر اس سال بھی عالمی سطح پر ایف ڈی آئی میں کمی دیکھی جائے گی۔
سرمایہ کاری کے لیے نیا معاہدہ
رپورٹ میں ایسی پالیسیوں اور مالیاتی طریقہ ہائے کار کے سلسلے اختیار کرنے کو کہا گیا ہے جن سے ترقی پذیر ممالک کو ضروری سرمایہ کاری کے حصول میں مدد ملے۔
انکٹاڈ نے ترقی پذیر ممالک کو ماحول دوست توانائی پر خرچ کے لیے درکار مالیاتی گنجائش مہیا کرنے اور نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی بنیادی شرط کے طور پر ملک میں سرمایہ کاری کو لاحق خدشات میں کمی لانے کے لیے قرضوں میں آسانی مہیا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
ادارے نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں، سرکاری شعبے اور کثیرفریقی مالیاتی اداروں کے مابین شراکتوں کے ذریعے ماحول دوست توانائی پر سرمایہ کاری کے لیے درکار سرمایے کی قیمت میں کمی لانے کی سفارش بھی کی۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو ترقی پذیر ممالک میں توانائی پر سرمایہ کاری کے منصوبوں کے لیے قرض پر سود کی شرح کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
گرینسپین نے واضح کیا کہ سرمایہ کاری کا ایس ڈی جی کے حصول میں بہت بڑا کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا ان اہداف کے حصول میں ناکامی کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پائیدار ترقی ممکن بنانے کا واحد ذریعہ ہیں جو اجتماعی اقدام اور عالمگیر یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں۔