انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سماجی، معاشی، اور ماحولیاتی زوال ٹالنے کے لیے نئی یو این تجاویز

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لڑکیاں کمپیوٹر سائینس کی کلاس میں کوڈنگ سیکھ رہی ہیں۔
© UNICEF
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لڑکیاں کمپیوٹر سائینس کی کلاس میں کوڈنگ سیکھ رہی ہیں۔

سماجی، معاشی، اور ماحولیاتی زوال ٹالنے کے لیے نئی یو این تجاویز

پائیدار ترقی کے اہداف

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ سبھی کے مزید منصفانہ اور مساوی مستقبل کے لئے عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانا، معاشی ترقی کو جی ڈی پی کے ذریعے ماپنے سے بڑھ کر اقدامات اور ٹیکنالوجی کے مسائل سے نمٹنا ضروری ہے۔

سیکرٹری جنرل نے یہ بات نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں گفتگو کرتے ہوئے کہی جہاں انہوں نے ان موضوعات پر رکن ممالک کے سامنے پالیسی سے متعلق تین نئے اقدامات کا خلاصہ پیش کیا۔

سنگین مسائل

انہوں نے کہا کہ "یہ خلاصہ ہمیں درپیش تین انتہائی سنگین مسائل سے متعلق ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن کا یہ تعین کرنے میں نمایاں کردار ہو سکتا ہے کہ کیا ہم 2030 کے ایجنڈے کے تصور اور پائیدار ترقی کے اہداف کو پانے کے اہل ہیں یا ہم متواتر سماجی، مالیاتی، سیاسی اور ماحولیاتی بگاڑ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔"

اس خلاصے کا مقصد پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کی راہ پر نصف مدت گزرنے پر ستمبر میں ہونے والی کانفرنس اور آئندہ برس 'مستقبل کی کانفرنس' کے لئے آگاہی بیدار کرنا ہے۔

یہ 'ہمارے مشترکہ ایجنڈے' میں شامل تجاویز پر مبنی ایسے 11 خلاصوں کے تازہ ترین سلسلے کا حصہ ہیں۔ یہ ایجنڈا دراصل سیکرٹری جنرل کی 2021 میں پیش کردہ رپورٹ ہے جس میں مستقبل کے لئے بین الاقوامی تعاون اور کثیرفریقی اقدامات کے تصور کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

امریکی دارالحکومت میں واقع آئی ایم ایف کا صدر دفتر۔
IMF/Henrik Gschwindt de Gyor
امریکی دارالحکومت میں واقع آئی ایم ایف کا صدر دفتر۔

مساوی مالیاتی نظام

انتونیو گوتیرش نے بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت کے بارے میں تواتر سے بات کی ہے جس کا مقصد اسے مزید مضبوط، مساوی اور سبھی کے لئے قابل رسائی بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قریباً 80 سال پہلے جب "آج کی بہت سی ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتیں نوآبادیاتی حکمرانی کے زیراثر تھیں، اس وقت بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت قائم کئے جانے والے موجودہ نظام کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی نمائندگی کرتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔

کووڈ۔19 وبا اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات سے بھی آشکار ہوا کہ کیسے یہ نظام مالیاتی تحفظ کے جال کی حیثیت سے کام کرنے کا اپنا بنیادی مقصد پورا کرنے میں "بڑی حد تک ناکام" ہو گیا ہے اور بہت سے ترقی پذیر ممالک کو اب شدید مالیاتی بحران کا سامنا ہے اور انہیں قرضوں کی ادائیگی میں مہلت نہیں مل رہی۔"

انہوں نے کہا کہ "اب افریقہ صحت عامہ کے بجائے قرضوں کی ادائیگی پر زیادہ اخراجات کرتا ہے۔"

تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ

پالیسی سے متعلق اس خلاصے میں تاریخی نانصافیوں اور نظام میں شامل جانبداری سے نمٹنے کے لئے تجاویز دی گئی ہیں اور اس حوالے سے چھ شعبہ جات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں عالمی معاشی انتظام، قرضوں کی ادائیگی میں آسانی، ریاستی قرضوں کی لاگت اور بین الاقوامی سرکاری مالیات بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "مجموعی طور پر خلاصے میں شامل تجاویز کا مقصد ایسے نظام کو ترک کرنا ہے جس سے امیر ممالک کو فائدہ ہوتا ہے اور جس میں مختصر مدتی فوائد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں ایسا نظام اختیار کرنا ہے جو مساوی ہو اور جس میں پائیدار ترقی کے اہداف اور آنے والی نسلوں پر پیشگی سرمایہ کاری کی جائے۔

اس حوالے سے پیش کردہ اقدامات میں عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے بورڈ میں وسعت لانا بھی شامل ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کی آوازوں کو مضبوط کیا جائے اور ان کی نمائندگی کو بہتر بنایا جائے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پچھلے کچھ عرصہ میں بے بہا ترقی کی ہے۔
Unsplash/Markus Spiske
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پچھلے کچھ عرصہ میں بے بہا ترقی کی ہے۔

جی ڈی پی سے آگے

انتونیو گوتیرش نے پالیس سے متعلق دوسرے مجوزہ اقدام کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) معاشی ترقی کو ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ہے تاہم اس کے ساتھ ترقی کا اندازہ لگانے کے دوسرے طریقے بھی ہونے چاہئیں۔

انہوں ںے کہا کہ "یہ بات تیزی سے تسلیم کی جا رہی ہے کہ جی ڈی پی میں ایسی انسانی سرگرمیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے جو زندگی کو برقرار رکھتی ہیں اور بہبود میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہم ایسی چیزوں کو غیرمتناسب طور سے اہمیت دیتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں اور ہماری زمین کو ختم کئے دیتی ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ "کسی جگہ انسانی ترقی کا دارومدار وہاں غربت اور بھوک کے درجے سے لے کر عدم مساوات، سماجی اتصال اور موسمیاتی بگاڑ و دیگر دھچکوں کے سامنے عدم تحفظ سمیت بہت سے حقائق پر ہوتا ہے۔"

وسیع تر ڈیجیٹل تعاون

آخری خلاصے میں ایسے ڈیجیٹل تعاون کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کی جڑیں انسانی حقوق میں ہوں اور جو خطرات اور نقصانات کے خلاف تحفظ مہیا کرے۔ اس میں ایک بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدے کی ضرورت بھی واضح کی گئی ہے جس کی تجویز 'ہمارے مشترکہ ایجنڈے' کی رپورٹ میں بھی شامل ہے۔

یہ خلاصہ ایسے وقت میں سامنے لایا گیا ہے جب ٹیکنالوجی "تیز ترین رفتار" سے ترقی کر رہی ہے اور اس میں مصںوعی ذہانت (اے آئی) اور حقیقی سے مشابہ جعلی مواد اور حیاتیاتی انجینئرنگ جیسے شعبے بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی بدستور غیرمساوی ہے جیسا کہ کووڈ۔19 وبا سے واضح ہو گیا ہے۔

اسی دوران ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر کنٹرول نے چند افراد اور کمپنیوں کو مالا مال کر دیا ہے۔ حکومتوں اور انضباطی اداروں کو اس صورت حال سے نمٹںے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث ایسے اداروں پر اعتماد میں کمی آئی ہے۔