انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تینتالیس ممالک کے ایک ارب لوگوں کو ہیضے سے خطرہ لاحق

شام: الیپو میں ایک بچی کو ہیضے کی ویکسین کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔
© UNICEF/Rami Nader
شام: الیپو میں ایک بچی کو ہیضے کی ویکسین کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔

تینتالیس ممالک کے ایک ارب لوگوں کو ہیضے سے خطرہ لاحق

صحت

اقوام متحدہ کے طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کئی سال تک ہیضے کے پھیلاؤ میں متواتر کمی کے بعد اب اس میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا میں انتہائی بدحال لوگ اس بیماری کے نشانے پر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے ایک نئے انتباہ میں کہا ہے کہ اب پہلے سے زیادہ ممالک کو اس بیماری کے پھیلاؤ کا سامنا ہے اور اطلاعات کے مطابق ہیضے سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ 10 سال پہلے کے مقابلے میں مریضوں کے حوالے سے نتائج بدترین ہیں۔

Tweet URL

غریبوں کی ہلاکت

یونیسف میں صحت عامہ سے متعلق ہنگامی صورتحال کے شعبے کے سربراہ جیروم فافمین زیمبرونی نے کہا ہے کہ "یہ وبا غریبوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے ہلاک کر رہی ہے۔"

اس تاریک منظرنامے کی تائید کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کی جاری کردہ معلومات یہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ برس مئی تک 15 ممالک نے اپنے ہاں ہیضے کی موجودگی کے بارے میں بتایا تھا لیکن اس سال مئی کے وسط تک ان ممالک کی تعداد 24 ہو چکی ہے۔

ڈبلیو ایچ او میں ہیضے کے خلاف عالمگیر ردعمل کے شعبے کے منتظم ہنری گرے کا کہنا ہے کہ "ہمارے اندازے کے مطابق موسم میں تبدیلی کے ساتھ مزید ممالک میں ہیضہ پھیلنے کی اطلاعات سامنے آئیں گی۔

گزشتہ دہائیوں میں اس بیماری پر قابو پانے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے باوجود ہمیں دوبارہ پہلے والی صورتحال کا سامنا ہونے کا خدشہ ہے۔"

ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ 43 ممالک میں ایک بلین لوگوں کو ہیضہ لاحق ہونے کا خطرہ ہے اور خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچے اس بیماری کے سامنے انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔ ہیضے سے غیرمعمولی شرح اموات بھی تشویش ناک ہے۔ ملاوی اور نائجیریا میں اس سال ہیضے سے اموات کی شرح تین فیصد رہی جبکہ اس حوالے سے قابل قبول شرح ایک فیصد ہے۔

ویکسین مسئلے کا حل نہیں

اگرچہ ہیضے سے تحفظ دینے والی ویکسین موجود ہے لیکن بڑھتی ہوئی طلب کے مقابلے میں اس کی رسد ناکافی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہیضے کی ویکسین کی 18 ملین خوراکوں کی ضرورت ہے لیکن اب تک صرف آٹھ ملین خوراکیں ہی مہیا ہو پائی ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ "ویکسین کی پیداوار میں اضافے سے یہ بیماری راتوں رات ختم نہیں ہو جائے گی۔ 2025 تک ہیضے کی ویکسین کی پیداوار دو گنا تک بڑھانے کا مںصوبہ ہے لیکن بیماری کے پھیلاؤ سے متعلق موجودہ رحجانات برقرار رہے تو ہمارے پاس خاطرخواہ مقدار میں ویکسین نہیں ہو گی۔ ویکسین اس بیماری کا مقابلہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن یہ مسئلے کا مجموعی حل نہیں ہے۔ نکاسی آب کو بہتر بنانے پر سرمایہ کاری اس مسئلے کا طویل مدتی حل ہے اور یہی ہماری ترجیح ہے۔"

یونیسف نے بھی ڈبلیو ایچ او کے اس انتباہ کو دہرایا ہے۔ زیمبرونی کا کہنا ہے کہ "ہمیں ناصرف طویل مدتی سرمایہ کاری درکار ہے بلکہ ہمیں پانی کے نظام میں بھی فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ صاف پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کی سہولیات تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔"

پانی پر سرمایہ کاری

ڈبلیو ایچ او ہیضے سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لئے 12 ماہ پر مشتمل تزویراتی تیاری، اقدامات اور مستعدی کا مںصوبہ شروع کر رہا ہے جس کے لئے 160 ملین ڈالر کی ضرورت ہو گی جبکہ یونیسف کو ہیضے سے نمٹنے کے لیے 480 ملین ڈالر درکار ہیں۔

ہیضے کے خلاف مشترکہ اقدامات کے منصوبے سے شدید بحران کا شکار 40 ممالک کو مدد ملے گی۔ اس میں ارتباط، بیماری کی نگرانی اور روک تھام، حفاظتی ٹیکے لگانا، علاج، نکاسی آب اور صحت و صفائی کی خدمات کی فراہمی بھی شامل ہے۔

ہنری گرے کا کہنا ہے کہ "اقوام متحدہ کے دو ادارے اس بیماری کے خلاف اکٹھے کام کر رہے ہیں۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہمیں مالی وسائل کی ضرورت ہے۔"