انسانی کہانیاں عالمی تناظر

دائمی امراض کا زندگیوں پر گہرا اور بڑھتا ہوا بوجھ

باقاعدہ ورزش دل کے امراض، ذیابیطس، اور سرطان جیسے غیر متعدی امراض میں کمی کی وجہ ہو سکتی ہے۔
Unsplash/Gabin Vallet
باقاعدہ ورزش دل کے امراض، ذیابیطس، اور سرطان جیسے غیر متعدی امراض میں کمی کی وجہ ہو سکتی ہے۔

دائمی امراض کا زندگیوں پر گہرا اور بڑھتا ہوا بوجھ

صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی سالانہ اموات میں سے تین چوتھائی کا سبب غیرمتعدی بیماریاں یا 'این سی ڈی' ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ 2022 تک عالمگیر صحت سے متعلق اعدادوشمار غیرمتعدی بیماریوں سے لاحق خطرے کے حوالے سے ایک سخت پیغام دیتے ہیں۔ یہ بیماریاں انسانی زندگیوں، روزگار، نظام ہائے صحت، لوگوں، معیشتوں اور معاشروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہیں جس میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔

Tweet URL

ڈائریکٹر جنرل کے مطابق ایسے اعدادوشمار پر مبنی رپورٹ میں صحت اور نظام ہائے صحت پر سرمایہ کاری میں نمایاں اضافے کے لئے کہا گیا ہے تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کی راہ پر واپس آیا جا سکے۔

آںے والی نسلوں کے لئے خطرہ

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے صحت کے شعبے میں مجموعی پیش رفت کے باوجود این سی ڈی کے باعث بڑھتے ہوئے نقصان کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہی رحجان 2050 تک جاری رہا تو ہر سال دنیا بھر میں ہونے والی 90 ملین اموات میں سے 86 فیصد دل کی بیماریوں، کینسر، زیابیطس اور سانس کے امراض سے ہوا کریں گی۔ یہ 2019 سے اب تک ان بیماریوں سے ہونے والی اموات میں 90 فیصد اضافہ ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق، مجموعی طور پر یہ رپورٹ 2000-2015 کے دوران دیکھے گئے رجحانات کے مقابلے میں "حالیہ برسوں میں صحت کے اہم اشاریوں میں جامد پیش رفت" کی نشاندہی کرتی ہے۔

کووڈ۔19 کا نقصان

رپورٹ میں عالمگیر صحت کو وبا سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں تازہ ترین اعدادوشمار بھی دیے گئے ہیں۔

کووڈ۔19 کے باعث ایس ڈی جی کے حصول کی راہ پر پیش رفت سست ہے۔ 2021-2020 کے دوران کووڈ۔19 کے باعث دنیا بھر میں 336.8 ملین سال زندگی کا نقصان ہوا۔ یہ غیرمعمولی حالات میں ہونے والی ہر موت سے زندگی کے اوسطاً 22 سال ضائع ہونے کے برابر ہے اور اس سے لاکھوں زندگیاں اچانک اور المناک طور سے کم ہو گئی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2000 سے اب تک زچہ بچہ کی صحت میں نمایاں بہتری آئی ہے اور ان کی اموات بالترتیب ایک تہائی اور نصف رہ گئی ہیں۔ ایچ آئی وی، تپ دق (ٹی بی) اور ملیریا جیسی متعدی بیماریوں سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے نیز این سی ڈی اور چوٹیں لگنے سے ہونے والی قبل از وقت اموات کا خدشہ بھی کم ہو گیا ہے۔

اس ترقی کی بدولت عالمی سطح پر اوسط عمر 2019 میں 73 برس تک پہنچ گئی تھی جو 2000 میں 67 برس تھی۔

تاہم وبا نے صحت سے متعلق متعدد اشاریوں کو بے سمت کر دیا ہے اور اعلیٰ معیار کی طبی خدمات، معمول کے حفاظتی ٹیکوں اور طبی حوالے سے مالیاتی تحفظ تک رسائی میں نابرابری کو بڑھا دیا ہے۔ نتیجتاً ملیریا اور ٹی بی کے حوالے سے بہتر ہوتے رحجانات دوبارہ منفی ہو گئے ہیں اور بہت کم لوگوں کو گرم خطوں کی نظرانداز شدہ بیماریوں کا علاج میسر ہے۔

برازیل کے ایک ہسپتال میں ذیابیطس کی مریضہ حاملہ خاتون کا بلڈ گلوکوز لیول جانچا جا رہا ہے۔
© WHO/Panos/Eduardo Martino
برازیل کے ایک ہسپتال میں ذیابیطس کی مریضہ حاملہ خاتون کا بلڈ گلوکوز لیول جانچا جا رہا ہے۔

پیش رفت کی کوئی ضمانت نہیں

ڈبلیو ایچ او میں معلومات، تجزیات اور اثرات کے شعبے کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سمیرا اسما نے خبردار کیا ہے کہ "کووڈ۔19 وبا ایک اہم یقین دہانی ہے کہ پیش رفت نہ تو بہت کم اور نہ ہی یقینی ہے۔ 2030 تک ایس ڈی جی کے حصول کے لئے درست راہ پر گامزن رہنے کے لئے ہمیں فیصلہ کن اور اجتماعی طور پر کام کرنا ہو گا تاکہ تمام ممالک کو معقول فائدہ ہو سکے۔''

موسمیاتی تبدیلی

اس سال کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ ایک باب موسمایتی تبدیلی اور صحت پر مخصوص ہے جبکہ ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ یہ آئندہ رپورٹ میں مزید اہمیت کا حامل ہو گا۔