انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان: خواتین کے خلاف جبر پر خاموش نہیں رہا جا سکتا، گوتیرش

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش قطر کے دارالحکومت قطر میں صحافیوں کو افغانستان کی صورتحال بارے آگاہ کر رہے ہیں۔
© UNESCO/Khava Mukhieva
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش قطر کے دارالحکومت قطر میں صحافیوں کو افغانستان کی صورتحال بارے آگاہ کر رہے ہیں۔

افغانستان: خواتین کے خلاف جبر پر خاموش نہیں رہا جا سکتا، گوتیرش

انسانی امداد

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات کی طرح جب خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر حملہ ہو گا تو ادارہ کبھی خاموش نہیں رہے گا اور خواتین کے امدادی کام کرنے پر طالبان کی پابندی سے وہاں لاکھوں زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے یہ بات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے بارے میں خصوصی نمائندوں کے ایک بین الاقوامی اجلاس کے انعقاد کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ نمائندوں نے افغانستان میں انتہائی کمزور اور غیرمحفوظ لوگوں کی مدد کرنے کے لئے طالبان کے ساتھ ''رابطوں کی حکمت عملی'' کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

'طالبان کو تسلیم کرنا زیرغور نہیں'

انتونیو گوتیرش نے واضح کیا کہ یہ اجتماع ملک کے موجودہ حکمرانوں کو تسلیم کرنے سے متعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد دہشت گردی، انسانی حقوق پر حملوں اور منشیات کی سمگلنگ کے پھیلاؤ جیسے باہم مربوط اور شدید مسائل پر ایک مشترکہ بین الاقوامی سوچ پیدا کرنا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ ''ہم تعلق توڑ کر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ اجلاس میں بہت سے شرکا نے کہا کہ طالبان کے ساتھ تعلق مزید موثر اور ماضی سے سیکھے گئے اسباق کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ دور رس نتائج کی حامل حکمت عملی کو فروغ دینے کے لئے سبھی کو اکٹھا کرنے کی طاقت سے کام لیتا رہے گا۔ اس حکمت عملی میں افغان عوام کو موجودہ علاقائی پلیٹ فارمز اور اقدامات کی مطابقت سے مقدم رکھا گیا ہے۔''

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ طالبان رہنماؤں کی جانب سے گزشتہ مہینے افغان خواتین کے اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے پر پابندی سے متعلق جاری کردہ حکم اور اس سے پہلے انہیں قومی اور بین الاقوامی این جی اوز میں کام سے روکے جانے کے احکامات ناقابل قبول ہیں اور ان اقدامات نے زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ ''میں واضح کر دوں کہ ہم خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر بے مثال اور منظم حملوں پر کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔ جب لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو خاموش کرایا جائے گا اور انہیں منظرعام سے ہٹا دیا جائے گا تو ہم ہمیشہ اس کے خلاف آواز بلند کریں گے۔''

اجتماعی مفاد

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوٹنبائیووا سمیت تمام نمائندوں نے اتفاق کیا کہ ''ایک دوسرے کے خدشات اور محدودات کو سمجھنا ضروری ہے لیکن اکٹھے کام کرنا ہر ایک اور خاص طور پر افغانوں کے بہترین مفاد میں ہے۔''

انہوں نے طالبان کے ساتھ "رابطے کی ایسی حکمت عملی کی ضرورت پر اتفاق کیا جس سے افغانستان کے استحکام اور ملک کے حوالے سے اہم خدشات کو دور کرنے میں مدد ملے۔''

اگرچہ مختلف ممالک کی انسانی حقوق، دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے حوالے سے مختلف ترجیحات ہیں لیکن اس بارے میں ایک عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ تمام مسائل باہم مربوط ہیں اور انہیں مجموعی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

وسطی افغانستان میں ایک ہیلتھ ورکر ماں اور بچوں کو غذائیت بارے معلومات دے رہی ہے۔
© UNICEF/Christine Nesbitt
وسطی افغانستان میں ایک ہیلتھ ورکر ماں اور بچوں کو غذائیت بارے معلومات دے رہی ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران

انہوں نے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ''افغانستان کے حالات کی شدت کو پرکھنے میں خوش فہمی سے کام لینا مشکل ہے۔ یہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا انسانی بحران ہے۔''

ملک کی 97 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جبکہ 28 ملین افغانوں کو کسی نہ کسی طرح کی انسانی امداد درکار ہے۔

آئندہ دنوں میں ملک کو مزید امدادی مالی وسائل حاصل ہونے کی امید نہیں ہے جبکہ امدادی اقدامات کے مںصوبے کے لئے درکار 4.6 بلین ڈالر میں سے اب تک محض 294 ملین ڈالر ہی وصول ہو پائے ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی بڑی اکثریت تحفظ زندگی کے لئے مدد دے رہی ہے اور خواتین کو کام سے روکنا ایک ایسے ملک کی ترقی کو دانستہ کمزور کرنے کے مترادف ہے جسے پائیدار امن کے حصول اور علاقائی استحکام کی خاظر کام کرنے کے لئے ہر طرف سے مدد کی اشد ضرورت ہے۔

قیام اور مدد

انہوں ںے وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ کا افغان عوام کی مدد کرنے کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہو گا اور ادارہ نازک حالات میں لوگوں کی زندگیوں کو سہارا دینے کے لئے امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں میں ہم افغانستان میں رہ کر کام کرتے رہے ہیں۔ ہم امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے لئے درکار حالات پیدا کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان رہنماؤں سے کب ملاقات کر سکتے ہیں تو انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی اس کے لئے موزوں وقت نہیں ہے لیکن اگر ایسا کوئی امکان ہوا تو ''یقیناً وہ ملاقات سے انکار نہیں کریں گے۔''

انہوں ںے بتایا کہ نمائندوں کے آئندہ اجلاس کے انعقاد کے لئے انہوں نے ذاتی دلچسپی لی ہے۔