انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کووڈ۔19 کی وجہ سے 55 ممالک کو ہیلتھ ورکروں کی کمی کا سامنا

سورینیم میں ایک ہیلتھ ورکر کووڈ۔19 کے لیے نمونے کی جانچ کر رہی ہیں۔
© UNICEF/Timoty Henny/Slingshot
سورینیم میں ایک ہیلتھ ورکر کووڈ۔19 کے لیے نمونے کی جانچ کر رہی ہیں۔

کووڈ۔19 کی وجہ سے 55 ممالک کو ہیلتھ ورکروں کی کمی کا سامنا

صحت

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ کم از کم 55 ممالک کو طبی کارکنوں کی شدید کمی کا سامنا ہے جو بہتر اجرتوں کی تلاش میں امیر ممالک کو جانا چاہتے ہیں جنہوں ںے کووڈ۔19 وبا کے دوران انہیں بھرتی کرنے کی کوششوں میں اضافہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق اس صورتحال میں براعظم افریقہ کے ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں 37 ممالک کو طبی کارکنوں کی اس قدر کمی کا سامنا ہے کہ ان کے لیے 2030 تک اپنے ہر شہری کو طبی نگہداشت کی فراہمی کے امکانات خطرے میں پڑ گئے ہیں جو کہ پائیدار ترقی کے اہداف میں شامل ایک اہم وعدہ ہے۔  

ڈبلیو ایچ او کے انتباہ میں دوسرے علاقوں کے علاوہ معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) سے تعلق رکھنے والے دولت مند ممالک کے اقدامات کی جانچ کی جا رہی ہے۔

عراق کے کرد علاقوں میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔
© UNICEF/Anmar Anmar
عراق کے کرد علاقوں میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔

بھرتی کی مہم

ڈبلیو ایچ او میں طبی کارکنوں سے متعلق پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جم کیمبل نے کہا ہے کہ ''افریقہ میں یہ ایک متحرک معیشت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جو نئے مواقع پیدا کر رہی ہے۔

خلیجی ممالک روایتی طور پر غیرملکی اہلکاروں پر انحصار کرتے ہیں اور ان میں بعض او ای سی ڈی کے اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں شامل ہیں جنہوں ںے وبا کا مقابلہ کرنے اور اس کے دوران زندگیوں کے نقصان اور بیماری پر قابو پانے اور طبی کارکنوں کی غیرموجودگی سے نمٹنے کے لیے طبی عملے کی بھرتی اور اسے نوکریاں دینے کا عمل تیز کر دیا تھا۔

ڈبلیو ایچ او نے ممالک کو ان کے کمزور نظام ہائے صحت کو تحفظ دینے کے لیے طبی عملے کی مدد اور اس کے تحفظ سے متعلق ایک تازہ ترین فہرست جاری کی ہے جس میں ایسے ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے جہاں تربیت یافتہ طبی عملے کی تعداد بہت کم ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ''ان ممالک کو صحت کے شعبے میں افرادی قوت تیار کرنے اور صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے علاوہ دوسری ممالک کی جانب سے اپنے عملے کی بھرتی کو محدود رکھنے کے لیے اضافی اقدامات کی غرض سے ترجیحی مدد درکار ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ طبی کارکن ہر نظام صحت میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
UN Photo/Evan Schneider
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ طبی کارکن ہر نظام صحت میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

ٹیڈروز کا مطالبہ

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے پائیدار ترقی کے اہداف کی مطابقت سے تمام ممالک کے تمام لوگوں کو طبی نگہداشت کی فراہمی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے ہر ملک پر زور دیا ہے کہ وہ ''ڈبلیو ایچ او کی جانب سے طبی افرادی قوت کی مدد اور اسے تحفظ مہیا کرنے کے اقدامات سے متعلق فہرست میں دی گئی شرائط کا احترام کرے۔''

انہوں نے کہا کہ طبی کارکن ہر نظام صحت میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں تاہم اس کے باوجود 55 ممالک میں، جہاں صحت کے نظام نہایت کمزور ہیں، مناسب تعداد میں طبی عملہ موجود نہیں ہے اور ایسے بہت سے ممالک میں طبی کارکن دوسری ممالک کی جانب مہاجرت اختیار کر رہے ہیں۔''

تجارتی مفاد

اگرچہ بہت سے ممالک طبی کارکنوں کی بھرتی کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی رہنما ہدایات کی پابندی کرتے ہیں تاہم اس اصول کو بڑے پیمانے پر اسے قبول نہیں کیا جاتا۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر کیمبل نے کہا کہ ''ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ممالک کی اکثریت ان شرائط پر عمل کر رہی ہے اور کمزور ممالک سے طبی عملے کو بڑی تعداد میں بھرتی نہیں کر رہی۔ تاہم بھرتی کی ایک نجی مارکیٹ بھی ہے اور ہم ان سے بھی چند عالمگیر معیارات پر عمل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی ان کے کام اور طرزعمل سے عکاسی ہونے کی توقع ہے۔

انہوں ںے مزید کہ اگر حکومتوں اور افراد کو طبی عملے کو بھرتی کرنے والوں کے طرزعمل پر ''تشویش'' ہو تو ان کے لیے ڈبلیو ایچ او کو اس کی اطلاع دینے کے طریقہ ہائے کار بھی موجود ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے صحت کے شعبے میں افرادی قوت سے متعلق تعاون اور اس کے تحفظ سے متعلق اقدامات کی فہرست عالمی سطح پر طبی عملے کی بھرتی کی ممانعت نہیں کرتی۔ تاہم اس میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ پروگرام چلانے والی حکومتیں ایسے ممالک میں نظام ہائے صحت پر بھرتیوں کے اثرات سے آگاہ ہوں جہاں سے وہ تربیت یافتہ عملہ حاصل کرتی ہیں۔