انسانی کہانیاں عالمی تناظر

میانمار: ٹاماڈو فوج کی ’سب جلا دو‘ پالیسی مرکز توجہ

جمہوریت پسند نوجوان میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
Unsplash/Pyae Sone Htun
جمہوریت پسند نوجوان میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔

میانمار: ٹاماڈو فوج کی ’سب جلا دو‘ پالیسی مرکز توجہ

انسانی حقوق

میانمار میں فوجی بغاوت کے دو سال بعد اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر 'او ایچ سی ایچ آر' نے خبردار کیا ہے کہ جرنیلوں کی ہر شے کو تباہ کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں ہزاروں شہری ہلاک ہو گئے ہیں اور لڑائی سے 80 فیصد آبادیاں متاثر ہوئی ہیں۔

او ایچ سی ایچ آر کی میانمار کے لیے ٹیم کے سربراہ جیمز روڈ ہیور نے ملک میں جاری بحران پر ادارے کی تازہ ترین رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہر جگہ فوج اس قدر پھیل گئی ہے کہ اسے فضائی حملوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ یکم فروری 2022 اور 31 جنوری 2023 کے درمیانی عرصہ میں متواتر تشدد بشمول مخالفین کی ہلاکتوں، ناجائز حراستوں، تشدد اور جبری گمشدگیوں کے نتیجے میں میانمار کے لوگ بیرونی مدد حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔

Tweet URL

انہیں درپیش تمام تر مسائل کے باوجود اس بغاوت کی مخالفت اور اپنے انسانی حقوق اور جمہوری مستقبل کی تلاش جاری رکھنے کے لیے ان کے ارادے متزلزل نہیں ہوئے۔''

ٹاماڈوکا قبضہ

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق بغاوت کے بعد اب تک تقریباً 3,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خیال ہے کہ ان میں 30 فیصد ہلاکتیں دوران حراست ہوئیں۔

جیمز روڈہیور کےمطابق، گزشتہ برس خاص طور پر ملک کے شمال مغربی اور جنوب مشرقی حصوں میں تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں فوج کو 14 مختلف محاذوں پر لڑنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علاقوں میں فوج اس قدر پھیل گئی کہ اسے فضائی حملوں اور بھاری ہتھیاروں کا سہارا لینا پڑا ہے۔ انہوں ںے کہا کہ ''اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صورتحال ان کے قابو میں ہے۔''

ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی اپیل

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے اس بحران کو خٹم کرنے کے لیے ''فوری اور ٹھوس اقدامات'' کے لیے کہتے ہوئے تشدد کے فوری خاتمے، ناجائز حراست میں رکھے گئے تمام لوگوں کی فوری رہائی، احتساب اور امدادی اداروں کو متاثرین تک بلارکاوٹ رسائی دینے کے مطالبات کی حمایت کی۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ نے کہا کہ ''فوجی بغاوت سے دو سال بعد جرنیلوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے لیے زمین پر ہر شے کو تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ افسوسناک طور پر امن اور ممانعت کے لیے علاقائی اور عالمی کوششیں بڑی حد تک اکارت گئی ہیں۔ بدترین صورت اختیار کر جانے والی اس تباہی کو ختم کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

سیاسی قیدیوں کی حالت زار

انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میانمار میں سیاسی قیدیوں کی تعداد تقریباً 20,000 ہے۔ ان میں تقریباً 16,000 کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔

او ایچ سی ایچ آر کے جیمز روڈہیور نے کہا کہ ''ہم جانتے ہیں کہ ان میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ وہ اور ان کے اہلخانہ کہاں ہیں۔ بدقسمتی سے انسانی حقوق کے گروہوں سمیت کسی کو حراستی مراکز تک رسائی نہیں دی گئی۔''

چونکہ 'او ایچ سی ایچ آر' کو میانمار تک رسائی نہیں ہے اسی لیے اس رپورٹ کے نتائج کی بنیاد 96 متاثرین سے بات چیت اور ملاقاتوں کی تفصیلات، سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر، ملٹی میڈیا کی مصدقہ فائلوں اور قابل اعتبار عام اطلاعات اور اقوام متحدہ کے نظام میں باقاعدہ اشتراک، معلومات اور اطلاعات کے تبادلے پر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''انسانی نقصان کے بارے میں جو اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں وہ زمینی حقائق کے مقابلے میں بہت کم ہو سکتے ہیں۔''